شادی ہالوں کی دنیا

شادی ہالوں کی شکل و شباہت بھی اب بدلتی جا رہی ہے۔پہلے پہل شادی ہال گلی کوچوں میں بنے۔ چھوٹے تھے مگر کام کر جاتے تھے۔ ان میں سے اب بھی ہیں۔مگر ان کی آن بان وہ نہیں رہی۔ کیونکہ ان کے مقابلے میں اب بہت زیادہ بہتر بلکہ بہترین شادی ہال بن گئے ہیں۔بلکہ میں کہوں کہ یہ منافع بخش کاروبار ہے۔جس کے پاس جتنی زیادہ زمین ہے وہ اتنا ہی زیادہ بڑا شادی ہال بنا سکتا ہے۔کیونکہ اب تو وقت کی ضرورت ہے کہ شادی ہال کو بڑا ہونا چاہئے۔ کیونکہ سرکاری لوگوں نے بھی نئے شادی ہالوں کے لئے اجازت اس شرط پر دے رکھی ہے کہ وہاں گاڑیوں کی پارکنگ کے لئے اچھی خاصی جگہ ہونی چاہئے۔
 پھر واقعی شادی ہال میں اگر گاڑی پارک کرنے کی جگہ کم ہو تو فائدہ نہیں۔ کیونکہ شادی میں بارات ہو یا ولیمہ آج کل گاڑیوں کی بھرمار ہوتی ہے۔جس کی وجہ سے شادی ہال کے اندر تو کیا باہر سڑک پر بھی گاڑیوں کا بے پناہ رش ہوتا ہے۔شہری اپنی موٹر کاروں کے سمیت ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہوتے ہیں۔اب کبوتر چوک میں صرف ایک کبوتر ہوتا ہے جو چوبیس گھنٹے وہاں اوپر کنارے پر بیٹھا رہتا ہے۔ جو نہ خود اڑتا ہے اور نہ اس کو کوئی اڑا سکتا ہے۔پھر اس سیمنٹ کے کبوتر کے بجائے حقیقی کبوتر تو وہاں سرے سے غائب ہو تے ہیں۔ مگر اس چوک میں ہر ہفتے چھٹی کے دن اور اس سے ایک روز پہلے اکثر شام کے وقت وہ رش ہوتا ہے کہ توبہ توبہ۔
بھلے چنگے لوگ جو سودا سلف لینے قریب کے گھروں سے باہر نکلے ہوتے ہیں وہیں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ یہاں تو جمعہ ہو یا ہفتہ اور اتوار ہو۔ پھر دوپہر ہو یا رات ہوگاڑیوں کا رش اکٹھا ہو جاتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس چوک کے گرد بہت سے شادی ہال ہیں۔جو شادی ہال اس چوک سے دور بھی ہیں تو یہ راستہ ان شادی ہالوں تک جاتا ہے۔پہلے کے گلی کوچوں میں قائم شادی ہالوں میں پارکنگ نہ ہونے کی وجہ سے باہر مین گیٹ پر جو گاڑیوں کا رش رہتا ہے اس سے عام آدمی بھی کوفت میں مبتلا ہو کر ہونٹوں ہونٹوں میں شادی ہال کی انتظامیہ کو برا بھلا کہتا ہے۔ اس لئے آج کل بیاہ رچانے والے وہ شادی ہال پسند کرتے ہیں جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ کھپ جائیں‘ ایک سے ایک بڑ ھ کر شادی ہال ہے پھر مہنگے سے مہنگا ہے۔ 
شادی کے گھر والوں کی کوشش ہے کہ شادی ہال شاندار ہو۔ شادی ہال اتنے زیادہ ہو چکے ہیں کہ اب ان کی اپنی یونین بن چکی ہے۔ ان دنو ں پشاور میں وہ گرمی نہیں جو جون جولائی اگست میں ہوتی ہے۔سو اس وقت شادی ہالوں میں شادیوں کی دھمکار اور موسیقی کی جھنکا ر ہے۔پلیٹوں میں چمچ کھڑکتے پڑے ہیں اور لاکھوں کے لگے بڑی الماریوں جیسے ایئر کنڈیشن ٹھنڈی ہوا دے رہے ہیں۔مگر اب تو شادی بیاہ کے معاملے میں جن کو تاخیر گوارا تھی کہ چلو سخت سردی کے موسم میں نومبر سے لے کر فروری تک کے دورانیہ کا انتظار کرلیں گے وہ بھی اب جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ آدمی زیادہ سے زیادہ مصروف ہوا جاتا ہے۔
یہ لوگ گرمی کے مہینوں میں بھی بیاہ کا ڈول ڈالتے ہیں بلکہ ڈول گلے میں ڈال کر بجانا شروع کر دیتے ہیں شادی ہال وہ ہو جہاں مرکزی دروازے کے اندر جا کر بندہ کا دل اچھا ہو موڈ خوشگوار ہو او ریوں محسوس ہو جیسے سیر تماشے کو آئے ہوں دل جھوم جھوم جائے۔چونکہ مقابلے کی فضا ہے اس لئے خوب سے خوب تر کی تلاش میں خوبصورت شادی ہال موجودہیں۔ 
شادی ہال وہ ہو جہاں کی لوکیشن خاموش اور خوبصورت ہو اورسبزہ ہو سڑکیں صاف ستھری ہوں بھلے وہ شہر سے دورہو۔ مگر یہاں شہر سے آنیوالے کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی جاتے ہیں کیونکہ اگر ارادہ پختہ ہو اور نیت نیک ہو تو منزل تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے اور پھر یہ تو کھانے پینے کا معاملہ ہے۔کیونکہ ہم جیسے بیمارجن کو پرہیز میں ہاتھ پاؤں باندھ کر جکڑا گیا ہے۔ وہ کھانے کی ا س پابندی کیخلاف چپکے بغاوت کا علم لیکر گھروں سے نکلتے ہیں اور شادی ہالوں کے دروازوں تک پہنچ کر دل ہی دل میں آزادی کے نعرے لگاتے ہیں‘کھاتے ہیں پیتے ہیں اور موج مستی کرتے ہیں۔