بلوچستان میں ہوئے حالیہ بلدیاتی انتخابات کے دلچسپ نتائج میں یہ بات بھی شامل ہے کہ عوام کی اکثریت نے سیاسی جماعتوں کے مقابلے آزاد انتخابی اُمیدواروں کو زیادہ ووٹ دیئے ہیں اور یوں مقامی حکومتوں کیلئے سیاسی جماعتوں کے نامزد امیدواروں کو بڑی تعداد کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اکتیس مئی تک کی گئی غیر سرکاری ووٹوں کی گنتی کے مطابق ”آزاد امیدواروں نے 1882 نشستیں حاصل کیں جبکہ جمعیت علمائے اسلام فضل (جے یو آئی ایف) کو سب سے زیادہ یعنی 472 نشستیں ملیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) 303‘ پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے ایم اے پی) 152‘ نیشنل پارٹی (این پی) 145‘ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی ایم) 102‘ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) 134‘ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی (بی این پی اے) 68‘ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) 71‘ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) 44‘ جموری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) 19‘ مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) 20 اور جماعت اسلامی (جے آئی) کے حصے میں کل 16 نشستیں آئیں۔
ذہن نشین رہے کہ بلوچستان کے 34 اضلاع ہیں اُور اِن میں سے 32 اضلاع میں مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوئے اور صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 100 سے زائد عام نشستوں پر خواتین نے انتخابات میں حصہ لیا۔ بلوچستان کے مقامی حکومتوں (لوکل گورنمنٹ) انتخابات میں 35لاکھ 52ہزار 398افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق بتیس اضلاع میں پانچ ہزار دوسوچھبیس پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے تھے۔پاکستان میں مقامی حکومتوں یعنی عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل بلدیاتی اداروں کے قیام کا تصور اور طریقہ کار تو موجود ہے لیکن یہ ایک نظر انداز شعبہ ہے اور متعلقہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے بلدیاتی نمائندوں کو خاطرخواہ (حسب قانون و قواعد) مالی وسائل فراہم نہیں کئے جاتے جس کی وجہ سے مقامی حکومتیں وجود تو رکھتی ہیں اور سیاسی و غیرسیاسی نمائندوں کا انتخاب بھی خوش اسلوبی سے ہو جاتا لیکن اُن کی خاطرخواہ فعالیت نہیں ہو پاتی کیونکہ مالی وسائل سے محروم اِن عوامی نمائندوں کو متبادل قوت کے طور پر نہیں دیکھا جاتا اور اِس کہانی کا طول ملک کے سبھی صوبوں میں ایک جیسا ہے۔
جہاں تک بلوچستان کی بات ہے تو مقامی حکومتوں کے انتخابات پرامن طریقے سے ہوئے اور رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے اِس بڑے صوبے نے اپنی پچاس سالہ تاریخ میں ایسے بلدیاتی انتخابات نہیں دیکھے جس میں ایک تو عوام کی شرکت غیرمعمولی رہی اور دوسرا اُن کی پسندیدگی کا رجحان سیاسی جماعتوں کی بجائے آزاد اُمیدواروں کی جانب رہا کیونکہ عوام نے سمجھ لیا ہے کہ مقامی مسائل کا حل اور عوام کے سامنے جوابدہی کے لحاظ سے آزاد اُمیدوار زیادہ موزوں رہتے ہیں اور اگر یہی سوچ برقرار رہتے ہوئے سرایت کرتی ہے تو آئندہ قومی انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو غیرمعمولی خسارے کا سامنا کرنے پڑے گا۔کون نہیں جانتا یا تسلیم نہیں کرتا کہ درحقیقت ”بلدیاتی ادارے یعنی مقامی حکومتیں کسی بھی جمہوریت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتی ہیں۔
آئین کے آرٹیکل ایک سو چالیس اے میں کہا گیا ہے ”ہر صوبہ قانون کے مطابق مقامی حکومت کا نظام قائم کرے گا اور سیاسی‘ انتظامی اور مالی ذمہ داری اور اختیار مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو منتقل کرنے کا پابند ہوگا۔“ پاکستان کو جو مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے جمہوریت کا اتنا اہم اور لازمی حصہ ہونے کے باوجود بلدیاتی اداروں کو منتقل کرنے میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ خیبر پختونخوا میں بااختیار بلدیاتی اداروں (مقامی حکومتوں) کے قیام کا سہرا ’تحریک انصاف‘ کے سر ہے جس نے سال دوہزاراٹھارہ سے مقامی حکومتوں کو اختیارات دیئے ہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ بلوچستان میں حالیہ مقامی حکومتوں کے انتخابات نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ موقع ملنے پر لوگ جمہوری طریقے یعنی رائے دہی کے عمل میں حصہ لیتے ہیں چاہے وہ اِس میں کتنی ہی خامیاں کیوں نہ ہوں۔
بلوچستان میں زیادہ شرح پولنگ یعنی ووٹر ’ٹرن آؤٹ‘ اس بات کی دلیل ہے کہ عوام اپنے حق رائے دہی اور اپنے ووٹ کی طاقت کو جان چکے ہیں اور وہ انتخابات کے مشتاق رہتے ہیں اِس سلسلے میں بلوچستان کے ضلع تربت کی مثال دیکھی جا سکتی ہے جہاں ووٹرز ٹرن آؤٹ 62فیصد رہا لیکن دیگر صوبوں کی صورتحال مایوس کن ہے۔ الیکشن کمیشن نے جون کے آخری ہفتے کیلئے سندھ کے 6 ڈویژنوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے لئے پولنگ شیڈول جاری کیا تھا۔
پنجاب کے نئے گورنر اور نئے وزیراعلیٰ سے توقع ہے کہ وہ بلاتاخیر و اعتراض صوبے میں مقامی حکومتوں کے قیام کی اجازت دیں گے۔ اب سندھ اور پنجاب ہی باقی بچے ہیں جہاں مقامی حکومتیں نہیں ہیں اور اِن دونوں صوبائی حکومتوں کیلئے کوئی بہانہ بھی نہیں رہا ہے۔ مقامی رہنما طلباء یونینوں اور مقامی حکومتوں کے ذریعے اُبھرتے ہیں۔ اقتدار کی نچلی درجے تک منتقلی کا وعدہ حسب آئین مکمل ہونا چاہئے اور اِس میں مزید تاخیر کسی اور کے لئے نہیں بلکہ خود سیاسی جماعتوں کیلئے خسارے کا باعث بنے گی۔
جس کی روشن مثال بلوچستان میں ہوئے انتخابات میں دیکھے گئے ہیں کہ جہاں سیاسی جماعتوں کے نامزد اُمیدواروں کے مقابلے آزاد اُمیدوار زیادہ بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے ہیں‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ مقامی حکومتوں کا نظام عوامی مسائل کو حل کرنے میں حد درجہ معاون ہے تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ بلدیاتی اداروں کو مزید فعال بنایا جائے۔ مقامی حکومتوں کے نظام عام آدمی کے مسائل نچلی سطح پر حل ہوتے اور اسے آسانی کے ساتھ ریلیف مل جاتا ہے۔ دنیا ترقی یافتہ ممالک میں مقامی حکومتوں کا نظام مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتا ہے اور اس کے ثمرات سے شہری مستفید ہوتے ہیں۔