ممنوعہ بور کے اسلحہ پر پابندی ضروری ہے

امریکہ میں آئے توروز سکولوں میں فائرنگ کے واقعات اور ان کے نتیجے میں ہلاکتوں کے بعد وہاں پر گن کنٹرول کے حوالے سے بحث چھڑ گئی ہے۔دیکھا جائے تو کسی بھی معاشرے میں اسلحہ کی فراوانی وہاں پرجرائم اور تشدد کے واقعات میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ ہمارے ہاں میڈیا میں جرائم کے بارے میں جو خبریں چھپ رہی ہیں ان کے پڑھنے کے بعد اس بات میں کسی شک و شبہ کی قطعاً گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اس تیزی کے ساتھ کرائمز کے بڑھنے کی بنیادی وجہ ملک میں ممنوعہ بور کے آ ٹومیٹک اسلحہ کی بہتات ہے۔ وہ دور اچھا تھا جب آ رمز ایکٹ کے تحت ہر ضلع کا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تفصیلی چھان بین کے بعد اسلحہ کے لائسنس جاری کرتا اس کا ایک ماہانہ فکسڈ کوٹا ہوتا جس سے زیادہ وہ لائسنس ایشو نہیں کر سکتا تھا ممنوعہ بور کے اسلحہ جاری کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔
 ہاں اگر ڈپٹی کمشنر کو کوئی درخواستی ٹھوس ثبوت پیش کر کے یہ ثابت کر دیتا کہ وہ واقعی دشمن دارہے اور اس کی جان کو خطرہ ہے تو اسے اسلحہ رکھنے کے واسطے آ رمز لائسنس جاری کر دیا جاتا۔پر وہ غیر ممنوعہ اسلحہ یعنی 32 بور کے پستول یا ریوالور کا ہوتا جس دن سے اس معاملے میں نرمی کی گئی ہے اور ممنوعہ بور کا اسلحہ رکھنے کی اجازت ملی ہے اس دن سے ملک میں قتل و غارت کی وارداتیں زیادہ ہوئی ہیں۔ یہ بات نا قابل فہم ہے کہ ہمارے ارباب اختیار نہ جانے اس معاملے میں کیوں سستی کا مظاہرہ کررہے ہیں وہ کس دن کا انتظار کر رہے ہیں۔ اصولی طور پر تو ممنوعہ بور کا اسلحہ صرف اور صرف امن عامہ کنٹرول کرنے والے اداروں کے افراد کے ہاتھوں میں ہونا چاہئے۔ 
مبصرین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ جرائم میں اضافے کی بڑی وجہ معاشرے میں اسلحے کی بہتات ہے،خصوصا ً ممنوعہ بور کے اسلحے کی کہ جس کے ایک فائر سے درجنوں افراد موت کے گھاٹ اتارے جا سکتے ہیں۔ اب ایک اور اہم مسئلے کا تذکرہ کرتے ہیں۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ دیکھ لیں وہ آ پ کو زوال پذیر نظر آئے گا۔ آ ئیے اس بیانئے کی وضاحت میں چند مثالیں پیش کریں۔کھیلوں کی دنیا پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو آ پ کوآج سکواش میں ہاشم خان،کرکٹ میں سر ڈانلڈ بریڈ مین، ہاکی میں دھیان چند اور فٹبال میں میراڈونا کے پائے کے کھلاڑی نظر نہیں آ رہے۔ فنون لطیفہ کے شعبے کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔ 
کیا آپ کو دلیپ کمار، پرتھوی راج کپور، فرینک سناٹرا،مارلن برانڈو، ایوا گارڑنر، انگرڈ برگمن، الزبتھ ٹیلر، سر لارنس آ لیور۔ مدھو بالا اور سنتوش کمار جیسے فلمی فنکار نظر آ تے ہیں؟۔ نہیں بالکل نہیں موسیقی کے شعبے میں ذرا جھانک کر دیکھیں تو آپ کو اُستاد بڑے غلام علی خان، نوشاد علی، شنکر جے کشن اور خورشید انور جیسے لوگ نظر نہیں آ ئیں گے۔ فلمی شاعری میں جو مقام راجندر کرشن، تنویر نقوی،شیلندرا اور حسرت جیپوری کا تھا وہ پھر اور کوئی شاعر حاصل نہ کر سکا۔ یقینا اس دلچسپ موضوع پر کسی ریسرچ سکالر کو ریسرچ کرنی چاہئے یہ جاننے کیلئے کہ اس زوال کی آخر وجہ کیا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جن ہستیوں کا ہم نے اوپر کی سطور میں ذکر کیاہے وہ سب اپنے اپنے فن میں تخلیقی صلاحیتوں کے مالک تھے اور انہوں نے اپنے لئے جو مقام بنایا وہ اپنی محنت سے بنایا ان کے سامنے کوئی رول ماڈل نہ تھا کہ جسے وہ کاپی کرتے جب کہ آج کی دنیا کے فنکاروں کے سامنے تو مندرجہ بالا ہستیوں کی شکل میں کاپی کرنے کیلئے کئی فنکار موجود ہیں۔