انٹرنیٹ: اخلاقی اقدار

انٹرنیٹ کے استعمال سے اچھائیوں اور برائیوں دونوں کا ظہور ہو رہا ہے لیکن خرابیاں کچھ اِس قدر زیادہ و پیچیدہ ہیں کہ اِن سے نمٹنے کیلئے قانون سازی کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ درحقیقت پاکستان میں قوانین کی قطعی کوئی کمی نہیں۔ عمومی و خصوصی نوعیت کے درجنوں قوانین ایسے بھی ہیں جن کی منظوری دینے کے بعد اُنہیں فراموش کر دیا گیا ہے اور اُن قوانین کے تحت ضوابط تشکیل نہیں دیئے گئے تاکہ عمل درآمد (اطلاق) ہو سکے۔رواں ہفتے خیبر پختونخوا قانون ساز ایوان نے انٹرنیٹ کے غلط استعمال بالخصوص اِس کے ذریعے بچوں کے خلاف جرائم روکنے اور ’سائبر ورلڈ‘ میں بچوں کا تحفظ و بہبود یقینی بنانے کے لئے ”چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر (ترمیمی) بل 2022ء“ منظور کیا جس میں بچوں کے جنسی استحصال‘ بچوں سے بداخلاقی پر مبنی جنسی مواد (چائلڈ پورنو گرافی)‘ بچوں کی سمگلنگ اور بچوں کے حقوق سے متعلق دیگر گھناؤنے جرائم میں ملوث مجرموں کو سزائے موت اور عمر قید سمیت سخت سزائیں دینے کی تجویز دی گئی تھی لیکن جب یہ مسودہئ قانون (بل) ایوان میں منظوری کے لئے پیش کیا گیا تو حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین کی اکثریت یا تو ایوان سے غیرحاضر تھی یا اُنہوں نے ایوان سے ’واک آؤٹ‘ کیا کیونکہ حزب اختلاف کو اِس بات پر حیرت اور شکایت ہے کہ مفاد عامہ کی اِس قانون سازی کے لئے اُن کی جانب سے دی گئیں تجاویز کو نظرانداز کیا گیا اور حزب اختلاف کی جانب سے ترمیمی تجاویز بھی نظرانداز کی گئیں۔
 مذکورہ قانون میں تجویز کیا گیا ہے کہ بچوں کے خلاف جرائم کی سزا موت‘ عمر قید اور کم از کم بیس لاکھ (دو ملین) روپے جرمانہ ہو سکتی ہے۔ اِسی طرح جرم (چائلڈ پورنو گرافی) میں معاونت کرنے والے کیلئے قید و بند کی سخت سزائیں لکھی گئی ہیں جو چودہ سال سے کم نہیں ہوگی اور اسے بیس سال تک بڑھایا بھی جا سکتا ہے اور اس پر جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا جو بیس لاکھ روپے سے کم نہیں ہوگا۔ بچوں کی سمگلنگ کے جرم کیلئے بل میں عمر قید یا پچیس سال کی سزا تجویز کی گئی ہے جو چودہ سال سے کم نہیں ہونی چاہئے اور اس پر جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا جس کی مدت پچاس لاکھ (پانچ ملین) روپے تک ہوسکتی ہے۔ 
نئے قانون کے تحت جنسی مجرموں کے کوائف الگ سے ترتیب دیئے جائیں گے اور قومی سطح پر ایسے مجرموں کی معلومات کا تبادلہ دیگر صوبوں سے کرتے ہوئے پولیس کمیشن کی مشاورت سے مجرموں کے نام درج کئے جائیں گے‘ جن کا حوالہ عدالت یا استغاثہ کے ذریعہ دیا جاتا ہے اور جو کسی بچے کے خلاف جنسی جرم میں ملوث پائے گئے ہوں۔ وہ شخص جس کا نام جنسی مجرموں کے رجسٹر میں درج کیا جائے گا‘ اُس کی خدمات تاحیات بچوں کی فلاح و بہبود کے اداروں یا تنظیموں سے سے بھی الگ رکھی جائیں گی۔انٹرنیٹ کے جرائم صرف بچوں ہی کے خلاف نہیں بلکہ معاشرے کی دیگر اکائیوں کے خلاف بھی رونما ہو رہے ہیں اور ہر کوئی اِن سے یکساں یا کسی نہ کسی طور پر متاثر ہے۔