رکشوں اور ٹرکوں پر کوئی نہ کوئی عبارت لکھی ہوتی ہے۔اس کے علاوہ اندرونِ شہر چلنے والی بسوں میں بھی کھڑکیوں کے اوپر کوئی نہ کوئی شعر وغیرہ تحریر ہوتا ہے۔ ان میں بہت سی غلطیاں ہوتی ہیں۔کہیں تو املا میں فرق ہوتا ہے۔کہیں کوئی لفظ چھوٹ گیا ہوتا ہے۔پھر کوئی لفظ اضافی طور پر لکھا جاتا ہے۔یا کسی مشہور شاعر کے شعرسے مصنف کا نام اڑا کر اپنا نام یاکسی اور کا نام ڈال دیتے ہیں۔اس میں بھی شک نہیں کہ بعض عبارت یا اشعار بہت چستی کے ساتھ بالکل درست لکھے ہوتے ہیں۔اس طرح کہ بندہ عش عش کر اٹھتا ہے۔پھر کوئی عبارت یا کسی کا قول یا پھر اقوالِ زریں میں سے کوئی ٹوٹا ایسا ہوتا ہے کہ پڑھنے والا یا تو خود اندر سے ٹوٹا ہو تو اور کرچی کرچی ہوجاتا ہے۔پھر ایسے بھی جملے کہ ٹوٹے ہوئے آدمی کے دل کا شیشہ اچانک جڑجاتا ہے کہ جیسے کبھی توڑا ہی نہیں گیا۔
”ہمارے دل سے مت کھیلو کھلونا ٹوٹ جائے گا۔ ذرا سی ٹھیس پہنچے گی یہ شیشہ ٹوٹ جائے گا“۔مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے۔اکثر طور پر یہاں ٹوٹی پھوٹی عبارتیں جملے او رشعر ہی لکھے ہوتے ہیں۔جن کاتعلق سکول کالج یونیورسٹی کے کسی کورس کے ساتھ نہیں ہوتا۔یاد پڑتا ہے کسی نے ارضِ وطن کے کسی شہر میں بسوں کی شاعری پر پوری کتاب تحریر کی ہے۔یہ بھی تو ریسرچ کاایک کام ہے اور تحقیق کا مقالہ ہے۔مگر بعض اشعار بڑے چن کر اور چلے میں کھینچ کر تیر کی طرح چلا دیئے گئے ہوتے ہیں کہ دیکھنے والے اور پڑھنے والے کے دل کے پرخچے اڑ جاتے ہیں۔ جو رکشہ کے باذوق پینٹر حضرات نے اپنی طرف سے لکھ دیئے ہوتے ہیں۔ یہیں میں نے ایک شعر پڑھا تھا ”ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز۔ کچا ترا مکان ہے کچھ تو خیال کر“۔
پھر میں نے بہتوں سے پوچھ گاچھ کی۔مگر سب نے کہا کہ یہ شعر فراز کی کسی کتاب میں موجود نہیں۔بلکہ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے کہا تھا کہ میں نے خود فراز سے پوچھا تھا کیا یہ شعر آپ کا ہے تو انھوں نے صاف انکار کیا تھا۔یہ ان رکشہ کمیونٹی کے اپنے شعر ہوتے ہیں۔ وہ مشہور شاعروں کانام اس لئے لکھ دیتے ہیں کہ خود ان کے نام سے لکھا شعر تو مشہور نہیں ہوگا۔ہاں معروف شاعر کانام لکھ دیتے ہیں۔اس سے کم از کم فائدہ یہ ہوگا کہ بھلے ہمارا نام مشہور نہ ہو مگر ہمارے اچھے خیالات پبلک تک پہنچ توجائیں گے۔ پھر رکشہ بس اتحاد کوکیا معلوم کہ واقعی وہ شعر اتنا زبانِ زدِ عام ہوگا کہ ان کو پشیمانی ہاتھ آئے گی۔اس لئے کہ کاش میں نے اپنا ہی نام لکھ ہی دیا ہوتا۔ مگر ان کو معلوم نہیں کہ اگر انھوں نے اپنا نام لکھا ہوتا تو یہ شعر کبھی مشہور نہ ہوتا۔
یہ تو گریٹ شاعروں کے ناموں کا جادو ہے کہ ان کے نام سے لکھا ہوا اگرمعیار ی ہوتا ہے تو عوام کے نوکِ زباں ہو جاتا ہے۔ایک اور شعر پڑھا تھا ”یارب نگاہِ ناز پہ لائسنس نہیں ہے کیوں۔یہ بھی قتل کر تی ہیں تلوار کی طرح“۔ اگرچہ کہ یہ اتنا پائے کا شعر نہیں۔ مگراس میں اچھی شاعری کی خوبیاں موجود ہیں۔اس کے علاوہ ہزاروں اشعار لکھے جاتے ہیں۔ مگر وہ ایک نظر دیکھ کر کہ جب تلک آپ بس میں سوار ہیں اور آگے کہیں اترنے والے ہیں مزہ دیتے ہیں۔بس میں بندہ فارغ بیٹھا ہوتا ہے۔لہٰذا ٹائم پاسنگ کیلئے اس شعر سے لطف لینا برا نہیں۔ اگر سوار سمجھ دار ہے توتنقید کی نگاہ سے اس شعر یاجملے وغیرہ کو دیکھتارہتا ہے۔
دل ہی دل میں اس کی املا بھی درست کر دیتا ہے۔مگر جب وہ اگلے سٹاپ پر نیچے اتر جاتا ہے تو اس کو بھی سب کچھ بھول چکا ہوتا ہے۔ایک بارمیں نے غلط شعر کی شکایت کی تھی۔ڈرائیور سے کہا تھا۔ اس نے مجھے یوں کھلی رہ جانے والی آدھ کھلی آنکھوں سے دیکھا جیسے میں خلائی مخلوق ہوں۔ اس کو میری باتیں سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں۔ پھر وہ رش اور سواریوں کے الجھاؤ میں یوں مصروف تھا کہ خود مجھے پشیمانی ہوئی کہ میں نے بیچارے کا قیمتی وقت ضائع کیا۔ جانے یہ شعر کب لکھا گیا۔اس میں بس کے مالک کا قصور ہے یا پینٹر نے اپنی طرف سے یا ڈرائیور نے اپنے پاس سے لکھوا دیا۔
جانے ان میں سے یہ شعر کس کی ملکیت ہے۔پھر اس بس کو کون کون سے ڈرائیور نے اب تک چلایا ہوگا۔کتنے ڈرائیور بدلے ہوں۔پھر کیامعلوم یہ کنڈکٹر کی کارستانی ہو اور وہ کنڈکٹر بھی یہیں موجودہے یا سالوں پہلے اس بس کے پائیدان پر کھڑا ہوتا ہوگا۔جانے وہ اب کہاں ہوگا۔ کیونکہ بس بھی تو آج کی بی آر ٹی بس نہیں جو جی ٹی روڈ پر چائنا کی مدد سے بیٹری سے چلتی ہے۔یہ شہر کے اندرون چلنے والی پرانی کھڑنک بس ہے۔جس کی ٹوٹی پھوٹی کھڑکیوں کی پتریاں اور سیٹوں کی اکھڑی ہوئی ریکسین کے نیچے نظر آنے والاتختہ سخت کھردرا سرہانا اور اندر کا تنگ و تاریک حبس زدہ ماحول سو سال قدیم آثار کی بنی ہوئی بسوں کی طرف دھیان دلاتا ہے۔