بھارتی عدالت کی جانب سے حریت رہنما یاسین ملک کو دی گئی عمر قید کی سزا نے تنازعہ کشمیر کو دوبارہ بین الاقوامی سطح پراُجاگر کیاہے۔ یاسین ملک کی سزا نے کشمیریوں کے زخموں کو ہرا کردیا ہے جو اپنے عزیزوں کی رحلت اور کشمیر کی آزادی کیلئے جدوجہد کو نہیں بھولے۔ مقبوضہ کشمیر میں خوف و دہشت کا راج ہے۔ کرفیو اور انتقام کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ سری نگر میں یاسین ملک کی رہائش گاہ کے ارد گرد جمع ہوئے اور ان کے اہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ اظہاریک جہتی کیا۔ کئی دیگر مقامات پر بھی اس سزا کی مذمت میں مظاہرے ہوئے اور یاسین ملک کی حق خودارادیت کیلئے تاحیات جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ چھپن سالہ یاسین ملک 1989ء میں اس وقت نمایاں ہوئے جب انہوں نے اپنے نوجوان ساتھیوں کے ساتھ مل کر مسلح جدوجہد شروع کی۔ اُنہیں اِس جرم میں جیل بھیج دیا گیا جبکہ دیگر ساتھی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں مارے گئے۔ اس مرحلے پرانہوں نے اپنے سیاسی نقطہ نظر میں تبدیلی کی اور ایک غیر متشدد تحریک شروع کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک بڑے پیمانے پر عوامی تحریک مہم چلائی جسے آزادی کا سفر کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس کا مقصد دوہزارسات میں بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت کے عمل میں جموں و کشمیر کے عوام کو شامل کرنا تھا۔ انہیں کشمیری کی آواز کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور وہ اِس سلسلے میں عالمی برادری کے ساتھ ملاقاتیں بھی کر چکے ہیں اور بھارت کی حکومت نے اُنہیں امریکہ اور دیگر ممالک جانے کیلئے پاسپورٹ بھی دیا تھا۔ رفتہ رفتہ وہ بات چیت کے علمبردار‘ تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کے مہم جو اور مفاہمت کی سیاست کے حامی بن کر ابھرے۔ انہوں نے متعدد مواقع پر متنبہ کیا کہ اگر کشمیریوں کو شامل کئے بغیر مذاکراتی عمل شروع کیا گیا تو اِس کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے اور کشمیری نوجوان تشدد کا سہارا لیں گے۔ ان کے الفاظ اس وقت درست ثابت ہوئے جب دوہزارسولہ میں برہان وانی کے قتل کے بعد وادی کشمیر چھ ماہ کی طویل ہڑتال سے گزری۔ یاسین ملک نے سید علی گیلانی اور میرواعظ عمر فاروق کے ساتھ مل کر سری نگر میں بھارت کے کل جماعتی پارلیمانی وفد سے ملنے سے انکار کردیا اور اسے ایک فضول مشق قرار دیا۔ نئی دہلی کو یہ بات اچھی نہیں لگی اُور اس نے یاسین کی قسمت پر سزا کی صورت عملًا مہر لگا دی۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں حکمران بی جے پی نے دسمبر دوہزارپندرہ میں کشمیر اور پاکستان کے بارے میں سخت پالیسی تبدیلیاں کیں۔ اس کے بعد تنازعہ کشمیر اور تحریک آزادی سے وابستہ لوگوں سے نمٹنے کیلئے فوجی نقطہ نظر اختیار کیا گیا۔ رفتہ رفتہ بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں بڑی سیاسی اور آئینی تبدیلیاں لائی گئیں جن کا مقصد سابق ریاست جموں و کشمیر کی حرکیات کو تبدیل کرنا تھا۔ محبوبہ مفتی کی قیادت والی ریاستی حکومت کو من مانی طور پر تحلیل کر دیا گیا۔ اس کے بعد آرٹیکل 370 اور 35اے ختم کر دیئے گئے۔ اس تناظر میں یاسین ملک پہلا جانی نقصان ثابت ہوا۔ آزادی کے حامی رہنماؤں کی ایک لمبی قطار اس وقت اسی طرح کے الزامات کے الزام میں جیلوں میں ہے اور اگر مقبوضہ کشمیر اور دنیا بھر کے طاقتور دارالحکومتوں کے اندر کوئی ٹھوس دباؤ نہ ڈالا گیا تو آنے والے دنوں میں ان پر ظلم و ستم کیا جا سکتا ہے۔ یاسین ملک کی زندگی بچانے کے لئے کثیر الجہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان کو اس سلسلے میں قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ یاسین ملک کے اہل خانہ کو خصوصاً بھارتی عدالتی نظام میں دستیاب قانونی آپشن کے لئے تمام ذرائع استعمال کرنے کے لئے اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک اور ان کی بیٹی اسلام آباد میں ہیں۔ صرف قانونی ماہرین ہی مشورہ دے سکتے ہیں کہ انہیں جلد از جلد جیل میں یاسین ملک سے ملنے کے قابل کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ اگر بھارتی جاسوس کلبھوشن یادھو کے اہل خانہ پاکستان میں ان سے ملاقات کر سکتے ہیں تو یاسین کی اہلیہ اور بیٹی بھی ایسا کر سکتی ہے مزید برآں یاسین ملک کی رہائی کو یقینی بنانے کی کوششوں کو بین الاقوامی سطح پر تیز کیا جانا چاہئے۔ بھارت خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کو مغرب میں اپنی ساکھ کے بارے گہری تشویش ہے۔
یاسین ملک کا معاملہ امریکی کانگریس‘ سینیٹ‘ امریکی میڈیا اور تھنک ٹینکس میں زیر بحث آنا چاہئے کیونکہ یاسین ملک منصفانہ مقدمے سے محروم ہے۔ برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک میں بھی یاسین ملک کے حق میں آواز اٹھانا ضروری ہے۔ دنیا کو معلوم ہونا چاہئے کہ یاسین ملک نے کئی دہائیاں قبل پرامن جدوجہد کا راستہ اختیار کیا تھا جو بی جے پی کے جنگجوانہ نقطہ نظر کو دنیا کے سامنے ظاہر کرنے کیلئے تھا اور یہی وجہ ہے کہ یاسین ملک کی عمر قید کی سزا درحقیقت مقبوضہ کشمیر کی آزادی میں اضافے کی سزا ہے اور اِس سے کشمیری نوجوان خود مزید تنہا‘ مزید الگ تھلگ اور زیادہ افسردہ محسوس کر رہے ہیں۔ یاسین ملک کو آزادی اور شہری آزادیوں کی جدوجہد کی علامت کے طور پر متعارف کرایا جاسکتا ہے۔ مغربی دنیا میں اسے ایک بہادر شخص کے طور پر متعارف کرایا جانا چاہئے جو اپنی قوم سے محبت کرتا ہے‘ اپنی بیوی اور بیٹی سے علیحدہ ہے اور اپنی سیاسی جدوجہد اور رائے کیلئے عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔ بھارت کے اندر بھی یاسین ملک کے ہمدردوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ انہیں متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ متعدد ہندوستانی دانشور اور انسانی حقوق کے محافظ یاسین ملک کو طویل عرصے سے جانتے ہیں۔ انہوں نے بھارت بھر میں انسانی حقوق کے ہندوستانی کارکنوں‘ بائیں بازو کے دانشوروں اور صحافیوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کئے۔ ان میں سے اکثر کو احساس ہے کہ مودی کی سخت پالیسیاں کشمیریوں کے دل و دماغ نہیں جیت سکتیں۔ یاسین ملک کے اہل خانہ اور دوستوں کو بھی خطے میں انصاف اور انسانی حقوق کے حق میں کھڑے ہونے والوں کو متحرک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔