ذرائع ابلاغ اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں جو ثقافت دکھائی جاتی ہے اُس کا ملک کی اکثریت کے رہن سہن سے تعلق نہیں اور اِس سے جنم لینے والی کہانیاں‘ مثالیں اور تقلید‘ ناقابل تقلید (تکلیف دہ) ہیں۔ معاشرے میں خواتین کتنی محفوظ اور کتنی غیرمحفوظ ہیں‘ اِس سے متعلق نتیجہ آئے روز شائع ہونے والی خبروں سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ تازہ ترین واقعہ بہاء الدین ذکریا ایکسپریس نامی ریل گاڑی میں پیش آیا! خواتین کے خلاف اِس قسم کے جرائم ’قومی مسئلہ اور المیہ‘ ہیں کیونکہ اِن جرائم میں مجرموں کو سزا دینے کے لئے ثبوت ہمیشہ ہی سے ناکافی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں خواتین کی آبادی کا تناسب پچاس فیصد اور اِسی تناسب سے خواتین کے خلاف جرائم کا تناسب بھی زیادہ ہے۔ غیرت کے نام پر قتل ہونے کے ساتھ خواتین ہی گھریلو تشدد‘ حملوں اور دیگر جرائم کا نشانہ بنتی ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ خواتین کے لئے کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ لمحہ فکریہ ہے کہ گھر سے باہر قدم رکھتے ہوئے خواتین کے دامن گیر پہلا خوف عصمت دری کا رہتا ہے اور اِس جرم کی حوصلہ شکنی کرنے کیلئے اگرچہ سخت قوانین موجود ہیں لیکن ہر مرتبہ شک کا فائدہ خواتین کیلئے اضافی شرمندگی‘ کوفت اور ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے اور خواتین ان حالات کا تن تنہا مقابلہ کر رہی ہیں۔
اگر معاشرہ واقعی اخلاقیات اور اقدار کے بارے میں فکر مند ہے تو ہر فرد کو ہاتھ‘ قلم اور زبان سے خواتین کے خلاف جرائم اُور تشدد روکنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ خواتین چاردیواری کے اندر اور باہر خود کو محفوظ تصور کریں۔ خواتین کے حقوق کی پائمالی کا آغاز گھر سے باہر قدم رکھتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ اِس سلسلے می پہلا واسطہ ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ سے پڑتا ہے۔ دوسرا واسطہ ہمارے گردوپیش میں موجود واضح طبقاتی تقسیم اور سماجی عدم مساوات سے پڑتا ہے بالخصوص جب کسی خاتون کا تعلق مزدور طبقے سے ہو‘ وہ غریب ہو‘ تو اُس کیلئے دنیا زیادہ زیادہ غیر محفوظ بن جاتی ہے۔ اِس قسم کے رجحانات صرف معاشرے ہی میں نہیں بلکہ سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پر بھی پائے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ خواتین کے حقوق سے متعلق صرف معاشرے ہی کی سطح پر نہیں بلکہ ابلاغ کے ہر ذریعے‘ واسطے اور وسیلے پر آواز اُٹھنی چاہئے۔ خواتین کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والے چاہے عام لوگ ہوں یا معاشرے کی بااثر شخصیات‘ ہر کسی کیلئے قانون کا اطلاق یکساں ہونا چاہئے۔ اِس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کو واضح پیغام دینا ہوگا کہ وہ کسی بھی ایسی صورت میں خواتین کی مدد کریں گی۔ خواتین کے خلاف جرائم روزانہ کی بنیاد پر ہونے لگے ہیں اور اِس سے پائی جانے والی پرتشدد سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔ کسی نظریاتی‘ اور اخلاقی ریاست (ملک) اور مذہبی اقدار کے امین معاشرے کو اِس قسم کے واقعات زیب نہیں دیتے‘ جن کا جواز و گنجائش دنیا کی کسی بھی تہذیب میں نہیں پائی جاتی۔