روس امریکہ میں براہ راست تصادم کا خطرہ

روس کے صدر پیوٹن امریکہ کی آنکھ میں کھٹکتے ہیں لہٰذا ان کی صحت کے بارے میں امریکہ اپنے ذرائع سے جو خبریں بھی دنیا میں پھیلاتا ہے وہ سو فیصد درست قرار نہیں دی جا سکتیں  مغربیمیڈیا کی تازہ ترین خبر یہ ہے کہ وہ نہ صرف کینسر جیسی موذی بیماری میں مبتلا ہیں بلکہ ان کے سر میں شدید درد رہتا  ہے اور وہ اپنی بینائی بھی کھو رہے ہیں اور ڈاکٹروں کے مطابق ان کے پاس زندہ رہنے کے واسطے صرف تین سال بچے ہیں نیز وہ پارکنسن  کے مرض میں بھی مبتلا ہیں کہ جو کبیر سنی میں اکثر لوگوں کو لاحق ہو جاتی ہے اور جس سے انسان کے ہاتھوں میں رعشہ اتر آتا ہے۔ اب اس خبر میں کتنی حقیقت ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم کمیونزم کا پرچار کرنے والے ممالک میں یہ قباحت ضرور ہے کہ  وہ اپنے حکمرانوں کی ذاتی زندگی اور اس سے جڑے مسائل کو صیغہ راز میں رکھتے ہیں اور ان کے بارے میں اگر کوئی خبر لیک leak ہوتی ہے تو وہ ویسٹرن میڈیاہی لیک کرتا ہے۔ پیوٹن ہٹ دھرم قسم کے انسان ہیں اور وہ امریکہ کو لوہے کے چنے چبوا رہے ہیں اور اس کوشش میں مصروف ہیں کہ وسطی ایشیا کے ان تمام ممالک کو دوبارہ روس کے ساتھ ملا کر سویت یونین کی عظمت رفتہ کو بحال کیا جائے کہ جو امریکہ کی سازش کے طفیل ماضی قریب میں روس سے جدا ہو گئے تھے۔ پیوٹن چونکہ ایک لمبے عرصے تک سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے سربراہ رہے ہیں  اسلئے وہ امریکن سی آئی اے کی سویت یونین کے خلاف کی گئی ریشہ دوانیوں کی فرسٹ ہینڈ انفارمیشن رکھتے ہیں۔  خروشیف جب تک سویت یونین کے کرتا دھرتا رہے ماسکو نے واشنگٹن کا ہر محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کیا پر ان کے اقتدار سے چلے جانے کے بعد ایک لمبے عرصے تک سوویت یونین کو جو سیاسی قیادت ملی وہ نہایت کمزور ثابت ہوئی اور اسی وجہ سے امریکہ دھیرے دھیرے دنیا کی سیاست پر چھا گیا

اور امریکی صدر رونالڈ ریگن کے زمانے میں تو دنیا یو نی پولر بن گئی تھی سوویت یونین کے جب ٹکڑے ہوئے تو اکثر سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ امریکہ اب بلا شرکت غیرے دنیا پر راج کرے گا پرایک طرف اگر پیوٹن کے روپ میں روس کو ایک مضبوط اعصاب والا حکمران نصیب ہو گیا تو دوسری طرف چین بھی ایک مضبوط سیاسی قوت کے طور پر دنیا میں اُبھرا اور امریکہ کی مشکلات میں اس وقت سے اضافہ ہونے لگا کہ جب چین اور روس یک جان دو قالب ہو گئے۔ آج دنیا میں کمیونسٹ بلاک جتنا مضبوط ہے ماضی میں شاذ ہی کبھی اتنا مٗضبوط ہو گا۔ پیوٹن کی معاشی حکمت عملی سے آج روس کی کرنسی روبل ڈالر کے مد مقابل کھڑی ہو رہی ہے جو امریکہ کیلئے تشویش کا باعث بن رہی ہے۔دوسری طرف روس نے امریکہ کی طرف سے یوکرین کو جدید راکٹ سسٹم اور گولہ بارود فراہم کرنے کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ روس نے امریکہ کے ساتھ براہ راست محاذ آرائی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے بھی خبردار کیا ہے۔کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''ہمیں یقین ہے کہ امریکہ جان بوجھ کر اور تندہی سے آگ میں ایندھن شامل کر رہا ہے۔جب پیسکوف سے یہ پوچھا گیا کہ اگر امریکہ کے فراہم کردہ راکٹ روسی سر زمین پر گرے تو ماسکو کا کیا ردعمل ہو گا؟ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا،  ہمیں فی الحال بدترین حالات کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہئے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرین کو ایسا جدید ترین راکٹ سسٹم  فراہم کرنے پر اتفاق کیا ہے، جو طویل فاصلے تک روسی اہداف کو درستی کے ساتھ نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ سسٹم اس نئے امدادی پیکیج کا حصہ ہو گا، جو واشنگٹن حکومت یوکرین کو دفاعی مقاصد کیلئے فراہم کر رہی ہے۔امریکہ نے حال ہی میں یوکرین کو ایسے راکٹ فراہم کرنے پر اتفاق کر لیا ہے، جو 80 کلومیٹر تک انتہائی درستی کے ساتھ اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ایک اعلی امریکی عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ یہ راکٹ یوکرین کو اس ''یقینی دہانی کے بعد فراہم کیے جا رہے ہیں، جس کے مطابق وہ انہیں روسی سرزمین پر استعمال نہیں کرے گا۔تاہم پیسکوف نے کہا ہے کہ ماسکو کو ایسی یقین دہانیوں پر بھروسہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روسی سرزمین پر ان راکٹ حملوں کے ممکنہ خطرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور اس حوالے سے مناسب اقدامات بھی کیے جائیں گے لیکن اس امریکی اقدام کو انتہائی منفی حوالے سے دیکھا جا رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی سپلائی یوکرینی قیادت کو تعطل شدہ امن مذاکرات کی بحالی سے دور رکھے گی۔  اس کے ساتھ ساتھ یوکرینی حکام اپنے اتحادیوں سے ایسے میزائل سسٹم کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو بیک وقت سینکڑوں راکٹ فائر کر سکیں اور  طویل فاصلے تک اپنے ہدف کو نشانہ بنائیں۔ یوکرینی حکام کو امید ہے کہ اس طرح جنگ کا پانسہ ان کے حق میں پلٹ سکتا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ہم نے تیزی سے یوکرین کو بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود بھیج دیا ہے تاکہ وہ میدان جنگ میں لڑ سکے اور مذاکرات کی میز پر ممکنہ طور پر مضبوط ترین پوزیشن میں رہے۔قبل ازیں روسی نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے کہا تھا کہ امریکہ کی طرف سے بھیجی گئی اسلحے کی ہر کھیپ کے ساتھ براہ راست تصادم کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔یعنی اس وقت دنیا پر تیسری عالمی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور  اور بدقسمتی سے دنیا میں ایسے سیاسی قائدین کی قلت ہے جو عالمی سطح پر تنازعات میں مصالحت کا کردار ادا کر سکیں۔