پاکستان کا قومی کھیل ہا کی اس قدر زوال کاشکار ہوجائیگا جس سے وہ ان دنوں دوچار ہے‘ ایسانہ تو کبھی کسی نے سوچا تھا اور نہ ہی ماضی میں اس طرح کی کوئی مثال ملتی ہے‘ پاکستان میں ہاکی کے عروج کی تاریخ تو بہت شاندار اور مثالی ہے لیکن اس کا زوال کئی حوالوں سے باعث تکلیف وپریشانی ہے۔اصل میں پاکستان میں ہاکی کے زوال کا تلخ سفر اس وقت سے شروع ہوگیا تھا جب یہ قومی کھیل اسکولوں اور کالجوں سے غائب ہونا شروع ہوا اور اسے میڈیا اور کارپوریٹ سیکٹر کی بھی ویسی توجہ حاصل نہ رہی جو کرکٹ کو مل رہی ہے۔اسی طرح ہمارے ہاں نہ تو کھیل کے طریقوں میں آنے والی نت نئی تبدیلیوں اور تکنیکوں کوفوری طور پر متعارف کرایا جا سکاہے اور نہ ہی ہاکی کے مختلف سطحات کے کھلاڑیوں کوایسی مراعات فراہم کی گئیں جو اس کھیل کو بطور پیشہ اپنانے کیلئے نوجوانوں میں دلچسپی کا باعث بن سکے۔ پاکستان ایک بار پھر ایشیا کپ کے سیمی فائنل اور عالمی کپ کی 16 ٹیموں میں اپنی جگہ کیوں نہیں بنا سکا‘ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنا متعلقہ اداروں کیساتھ ساتھ حکومت اور ہاکی کے شائقین کی بھی ذمہ داری ہے کیونکہ ہاکی کو ماضی کی حکومتیں جواہمیت دیتی رہی ہیں اس کا نتیجہ عالمی سطح پر شاندار فتوحات اور نتائج کی صورت میں سامنے آتا رہاہے۔مثلاًایک انتہائی ناتجربہ کار اور وسائل سے محروم پاکستان ہاکی ٹیم نے 1956 کے میلبورن اولمپکس کے فائنل میں ایک ایسے وقت میں جگہ بنائی جب پاکستان کو دنیا کے نقشے پر ابھر ے ہوئے صرف نو سال کا قلیل عرصہ ہواتھا۔ چار سال بعدپاکستانی ٹیم نے نہ صرف 1960 کے روم اولمپکس کے فائنل میں جگہ بنائی بلکہ اپنے روایتی حریف ہندوستان کو شکست دے کر پہلا اولمپک ہاکی ٹائٹل بھی اپنے نام کیا۔ 1968 کے میکسیکو اولمپکس کے دوران پاکستانی ٹیم مسلسل چوتھی بار فائنل میں پہنچی اور وہاں آسٹریلیا کو 2-1 سے شکست دے کر دوسرا اولمپک ہاکی ٹائٹل اپنے نام کیا۔ 1970 میں پاکستان ہاکی کے سربراہ ایئر مارشل نور خان نے ہاکی ورلڈکپ کو متعارف کرانے کا خیال پیش کیا۔ سپین میں منعقدہ پہلے ہاکی ورلڈ کپ میں پاکستان سیمی فائنل میں بھارت کوشکست دینے کے بعد فائنل میں نسبتاً آسان حریف اسپین کو 1-0 سے شکست دے کر پہلے ورلڈکپ کا تاج اپنے سر سجانے میں کامیاب ہوگیا۔ پاکستانی ہاکی ٹیم 1972 کے میونخ اولمپکس کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے ایک اعصاب شکن مقابلے کے بعد ہندوستان کیخلاف 2-0 سے سبقت حاصل کرکے بھارت کا غرور خاک میں ملا نے میں کامیاب رہی ہندوستان کو شکست دینے کے بعد پاکستان مسلسل پانچویں بار اولمپک ہاکی فائنل میں پہنچا‘
ا س بار مدمقابل جرمنی تھا جو ایک متنازع گول کے ذریعے یہ میچ تو جیتنے میں کامیاب ہوگیالیکن پاکستان دنیائے ہاکی کے لاکھوں کروڑوں شائقین کے دلوں پرپھر بھی راج کرتا رہا۔ پاکستان مانیٹریال اولمپکس 1976 میں پہلی بار اولمپک ہاکی فائنل میں پہنچنے میں ناکام رہا‘ اگرچہ اپنے پول میں وہ ٹاپ پر رہا مگر سیمی فائنل میں اسے آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا 1974 میں ایشین گیمز ہاکی فائنل جیتنے کے بعد پاکستان ہاکی ٹیم 1978 میں ہالینڈ کی مضبوط ٹیم کو شکست دے کر دوسرا ورلڈکپ ٹائٹل جیتنے میں سرخرو ہوئی جسکے فوراً بعد پاکستان نے چیمپئنز ٹرافی متعارف کرائی جس کا پہلا ٹورنامنٹ لاہور میں ہوا اور جس میں دنیا کی ٹاپ 8 ہاکی ٹیموں نے حصہ لیااور پاکستان اپنی جیت کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے یہاں فائنل میں آسٹریلیا کو ہر اکریہ عالمی ٹائٹل بھی اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوا‘یہاں ہمیں یہ تلخ حقیقت بھی تسلیم کرنی پڑیگی کہ پاکستانی ٹیم 1978 سے ہاکی کی عالمی نمبر ایک ٹیم تھی مگراس کے باوجودہاکی کے کھلاڑیوں کو ملکی کرکٹرز کو حاصل ہونے والی آمدنی کے نصف کے برابر بھی نہیں مل رہی تھی لیکن اس بے اعتنائی کے باوجود ہاکی ٹیم نے قوم کو مایوس نہیں کیا اور 1982 میں ممبئی میں کھیلا جانے والا عالمی کپ لگاتار دوسری دفعہ (مجموعی طور پر تیسری بار) اپنے نام کیا۔ماسکو اولمپکس کے بائیکاٹ کے باوجودپاکستانی ٹیم اولمپک مقابلوں میں اپنی فتوحات کا اعادہ کرتے ہوئے 1984 میں لاس اینجلس میں ساتویں بار اولمپک فائنل میں پہنچی اور اپنا تیسرا اولمپک ہاکی ٹائٹل مغربی جرمنی کو 2-1 سے شکست دے کر جیتا‘ پاکستان ہاکی چھ سال (1978-84) کے دوران دو ورلڈ کپ‘ دو چیمپئنز ٹرافی ٹائٹلز اور ایک اولمپک گولڈ میڈل جیت کر دنیائے ہاکی پر بلا شرکت غیرے حکومت کرتی رہی جس نے ہاکی کوملک کا مقبول ترین کھیل بنادیا تھا مگر ان فتوحات کے ساتھ مشکلات بھی بڑھ رہی تھیں‘ بارہ سال بعد 1994 سڈنی‘ آسٹریلیا کے چوتھے عالمی کپ کی کامیابی کے بعد یہ امید پیدا ہوچلی تھی کہ پاکستان ہاکی میں اپناکھویا ہوا مقام ایک بار پھر پانے میں کامیاب ہو جائے گالیکن اہل وطن کی آنکھیں پچھلے28 سالوں وہ دن دیکھنے کیلئے ترس گئی ہیں کہ کب دنیائے ہاکی پر ایک بار پھر گرین شرٹس کی حکمرانی ہوگی۔