وفاقی اور صوبائی سطح پر آئندہ مالی سال کے بجٹ (آمدن و اخراجات کے میزانیے) مرتب کرنے کا سلسلہ آخری مراحل میں ہے اور اِس موقع پر جبکہ اعداوشمار میں معمولی کمی بیشی (ردوبدل) کے ذریعے نوک پلک سنواری جاتی ہے۔ مناسب ہے کہ فیصلہ سازوں کو ’انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی)‘ کی یاد دہانی کروائی جائے تاکہ کم مالی وسائل اور مہنگائی کے منفی اثرات (چیلنجز) سے ”انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کی صنعت (انڈسٹری)“ کو محفوظ رکھا جا سکے اور اِس شعبے کے باصلاحیت و ہنرمند جو زرمبادلہ کمانے اور ترسیلات زر کرتے ہیں‘انہیں ملازمتی تحفظ فراہم ہو سکے۔ غور طلب ہے کہ پاکستان جو عالمی سطح پر سافٹ وئر انجینئرنگ کے شعبے میں مشہور ہیں لیکن یہاں خدمات کا خاطرخواہ معاوضہ نہیں ملتا جبکہ اِن صلاحیتوں کے نکھارااور خدمات کے نظام کو مربوط و منظم بنایا جا سکتا ہے فیصلہ سازوں کو پاکستان میں آئی ٹی کے شعبے کے ماہرین کی ”آؤٹ سورسنگ“ جیسی لعنت پر بھی غور کرنا چاہئے جس سے پاکستانی سافٹ وئر ڈویلپرز کی محنت پر دیگر ممالک اپنا نام اور منافع کما رہے ہیں۔ کم رفتار انٹرنیٹ اور غیرمعیاری انٹرنیٹ ایسا پہلا چیلنج ہے جسے حل کئے بغیر ’آئی ٹی شعبے‘ کی خاطرخواہ ترقی ممکن نہیں ہے۔ انٹرنیٹ سروسز کی عدم دستیابی اور کم معیار پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری کے لئے معمولی نہیں بلکہ غیرمعمولی (بڑا) چیلنج ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان میں تھری جی اور فور جی نیٹ ورکس کے آغاز کی وجہ سے براڈ بینڈ کی رسائی میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے لیکن اس کے بعد بھی ایک بڑی آبادی معیاری (قابل بھروسہ) انٹرنیٹ خدمات سے محروم ہے۔آئی ٹی سے متعلق دوسرا چیلنج ’تعلیمی خلأ‘ کا ہے۔ آئی ٹی گریجویٹ مہارتوں اور آئی ٹی صنعت کی ضروریات کے درمیان نمایاں فرق موجود ہے اور تعلیمی نصاب و صلاحیت عالمی معیار کے برابر نہیں ہے۔ آئی ٹی صنعت کو گریجویٹس کی ضرورت ہے‘جدید دور کی ٹیکنالوجیز کو تمام یونیورسٹیوں کے نصاب میں متعارف کرایا جانا چاہئے تاکہ زیادہ قابل اور ہنرمند گریجویٹ (ضرورت کے مطابق افرادی قوت) پیدا کئے جا سکیں۔تیسرا چیلنج‘ کاپی رائٹس کا نہ ہونا یعنی دانشورانہ املاک کے عدم تحفظ کا ہے جس سے متعلق قوانین کا فقدان ہے اور یہ مسئلہ بھی پاکستان میں ’آئی ٹی‘ کے مستقبل کو غیرمحفوظ بنا رہا ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں دانشورانہ املاک کے تحفظ کا فقدان ہے۔ امریکہ جیسے ممالک میں دانشورانہ املاک کی چوری بہت بڑا جرم ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں ’آئی ٹی‘ صنعتیں بڑھ رہی ہیں کیونکہ وہاں تمام نئی ایجادات‘ خیالات‘ ڈیزائن اور دیگر چیزوں کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہمیں دانشورانہ املاک کے تحفظ کے کچھ قوانین نافذ کرنے کی ضرورت ہے اور عدالتی نظام کو بھی آئی ٹی صنعت کی ترقی اور پھلنے پھولنے میں مدد دینے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ چوتھا چیلنج ’ای کامرس‘ کے لئے قانونی فریم ورک کے فقدان کا ہے۔ ’ای کامرس‘ کسی بھی ملک کی آئی ٹی صنعت کا ایک اہم جزو ہوتی ہے اور بعض ممالک میں تو یہ صنعت ریڑھ کی ہڈی جیسی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان میں ’ای کامرس‘ اور ’ای پیمنٹ سسٹم‘ کے فروغ کے لئے کوئی مناسب فریم ورک موجود نہیں ہے۔