محبتوں کے زمانے 

ہمارے ہاں فیشن ہو چکا ہے کہ شادی ہال زبردست ہونا چاہئے۔ بلکہ دولھا کی فرمائش ہوتی ہے کہ بڑا اور خوبصورت فلاں شادی ہال ہو۔ پھر ننھے میاں جو لاڈلے بھی ہیں اور سب گھرانے کی آنکھوں کے تارے راج دُلارے بھی ہیں توبھلا کون ان کی بات کو ٹال سکتا ہے۔ہاں یہ فرمائش اگنورکی جا سکتی ہے۔مگر غریب گھرانوں میں وہاں تو یہ صرف ایک خواہش ہوتی ہے جس کی تکمیل ضروری نہیں۔خواہش کرنے میں کیا حرج ہے۔مگراس سے ہٹ کر شادی ہال کے معاملے میں عام طور سے دولھا کی خواہش کو مد نظر رکھا جاتا ہے کیونکہ اس گھبرو نوجوان کے والدین کے پاس رقم بھی تو اچھی خاصی ہے۔ لیکن اس رقم سے غریبوں کی بچیوں کی دو تین شادیاں اچھے طریقے سے ہوسکتی ہیں۔ اس قسم کے خدا ترس حضرات موجود ہیں جو اس معاشرے میں دوسروں کے لئے بھی خفیہ طور پرآسانی پیدا کرتے رہتے ہیں کیونکہ خیر کا یہ عمل لگاتار ہوتا ہے۔میں سمجھتا ہوں انہی لوگوں کی وجہ سے دنیا کی رونق قائم ہے۔خیر شادی ہالوں کے کرایوں کی مد میں اٹھنے والی رقم بعض لوگوں کے ہاں فضول خرچی ہے۔ مگر بعض گھرانے جو زندگی کی ہرسہولت خرید لینے پر قادر ہیں ان کے لئے یہ ایک بہت ضروری کا م ہے۔جس کی وجہ سے اپنے خاندان اور دوستوں یاروں میں ان کی ناک اونچی رہتی ہے۔اسی کو تو اقدار کا کھیل کہتے ہیں۔ ایک بندہ اپنے گھر کی روٹی پوری کرنے کو ضروری سمجھتا ہے۔پھر وہ یہ بھی جانتا ہے کہ میرے اضافی خرچوں کو اگر ترک کردیا جائے تو دوسرے کے گھر کی بھوک بھی مٹائی جاسکتی ہے۔مگر اسی معاشرے کے دوسرے فرد کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ میں یہی رقم اپنی ذاتی ضروریات او رمہنگے ترین اخراجات پر خرچ کروں تاکہ معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاؤں۔اگر لاکھوں روپے ہیں تو ایک کے ذہن میں ان کو دوسروں پر بھی خرچ کرناہے۔جبکہ ایک کے ذہن میں صرف اپنی ذات پر خرچ کرنا ہوگا۔یہ اقدار کا کھیل ہے۔ ایک بندہ ایک چیز کو کتنی اہمیت دیتا ہے اور دوسرا بندہ اسی چیز کو کسطرح نظر انداز کرتاہے۔اسی کو تو معاشرتی ناہمواری کہتے ہیں۔ جس کے بطن سے روپے پیسے کی ناہمواری جنم لیتی ہے۔ خیر خیرات کو اگر بھرپور طریق سے عام کیا جائے تو کسب و معاش کی برابری قائم کی جاسکتی ہے۔ہر آدمی کو تو شادی ہال میسر نہیں۔ہمارے شہر اور اس کے گرد و نواح میں لوگ اپنے بچوں کی شادیاں  بہ امرمجبوری اپنے ہی گھر میں اپنی گلی میں کرتے ہیں۔کس کی خواہش نہ ہوگی کہ میرے مہمان آئیں تو میں ان کی راہ میں اپنی آنکھیں نہ بچھاؤں۔وہ چاہتا ہے کہ شادی میں آنے والوں کو بھرپور سہولت ملے۔ ان کو کھانے کے دوران میں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔کیونکہ ولیمہ‘بارات کا کھانا دو تین گھنٹوں کا کھیل ہوتا ہے۔کوئی کسی کی ساری عمر کے لئے سہولیات کی ذمہ داری نہیں لے سکتا۔مگر جہاں مجبوری ہے وہاں گلی کوچے میں شادیاں ہوتی ہیں۔ جہاں روپے پیسے کو عزیز نہ سمجھا جائے وہا ں شادی ہالوں کوکام میں لایا جاتا ہے۔بیس سال پہلے تو شادی ہال نہ تھے۔ کہیں کہیں خال خال اگر ہوں تو ہوں۔ ان دنوں کسی کے خیال میں بھی نہ تھا کہ شادی کے لئے شادی ہال ضروری ہے۔بہت بڑا خاندان ہوا تو کسی کا بڑا گھردو ایک دن کے لئے مالک مکان سے درخواست کر کے لے لیتے تھے۔شادی کے کھانے کے لئے اپنا گھر دینے والوں کو بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ ہوتی تھی۔محبتوں کے زمانے تھے مگر اب نہ رہے۔اب تو ہر آدمی اپنے بارے میں سوچ لئے گھوم رہا ہے۔ پہلے گلی میں شادی ہوتی تو سب گھروں کی بیٹھکوں کے دروازے کھل جاتے۔ خاندان اور والد چچا اور ماموں کے دوستوں اور خود دولھا کے یاروں کی نفری گلی میں اندر باہر تعینات ہو جاتی۔کھانا شروع ہو جاتا۔ بہت ہوا تو قناتیں لگاکر اپنی سہولت کے لئے غیر متعلقہ پبلک کا آناجانا بند کردیاجاتا۔ اب یہ کام شہر کے اندر کم ہونے لگا ہے۔پھر شہری حدود کے باہر چونکہ کھلے کھلے گھر او رحجرے ہوتے ہیں وہاں شادی ہالوں کی محتاجی کے بغیر شادیاں ہو رہی ہیں۔مگرمعاملہ فیشن کا ہے۔اس لئے بعض گاؤں وغیرہ کے لوگ بھی شہر کے مشہور شادی ہالوں میں شادیوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ مولانا محمد حسین آزاد نے فیش کے بارے میں بڑی خوبصورتی سے لکھا ہے کہ”جب رواجِ عام کا راجہ ہولی کھیلتا ہے تو بڑے بڑے معقول اور وضع دار اشخاص اس بات کی چھینٹیں فخر سمجھ کر سر اور دستار پرلیتے ہیں“۔ مطلب یہ ہوا کہ جب کوئی فیش رواج پانے لگتا ہے توسب اسی رنگ میں رنگے جانے لگتے ہیں۔