حکومت کے پاس بجز اس کے کوئی اور چارہ ہی نہیں تھا کہ پٹرول اخراجات میں 35 فیصد کمی کی جائے اور اس ضمن میں کفایت شعاری کی پالیسی نافذ کی جائے لہٰذا اس کا یہ فیصلہ بڑا صائب فیصلہ ہے کہ سرکاری محکموں و نیم سرکاری اداروں کو فوری طور پر اس پر عملدرآمد کی ہدایت کرے اگر اس فیصلے پر من وعن عمل درآمد کیا گیا تو ماہانہ ساڑھے بارہ کروڑ اور سالانہ ڈیڑھ ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔ وزیر اعظم صاحب کا یہ اعلان بھی بجا ہے کہ اشرافیہ کو بھی اس ضمن میں قربانی دینا ہو گی۔اس سلسلے میں حکومت نے کابینہ ارکان کے فری پٹرول پر کٹوتی کا بھی فیصلہ کیا ہے اور وہ بھی اپنی جگہ ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ لمبی چوڑی گاڑیاں اور اور بڑی بڑی لینڈ کروزر اور بھاری بھرکم جیپیں عام گاڑیوں سے بہت زیادہ پٹرول کھاتی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی درآمد پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ ایک طرف تو ہم بنیادی ضروریات کیلئے قرضے لے رہے ہیں اور دوسری طرف ہم سامان تعیش پر کثیر زر مبادلہ ضائع کر رہے ہیں۔ اس فاقہ مستی نے ہماری معیشت کو ڈبو دیا ہے اب بھی اگرہم نے اپنے اللوں تللوں کو ترک نہ کیا تو مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔اب ہر شعبہ زندگی میں انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے دنیا کے کئی ممالک ہا تو پانی سے بجلی بنا رہے ہیں اور یا پھر دیگر سستے ذرائع جیسا کہ سولر انرجی یا ونڈ انرجی وغیرہ سے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے اکثر مسائل کی وجہ ملک میں گڈ گورننس کا فقدا ن ہے روزانہ سرکاری اور نجی املاک میں آتشزدگی کے واقعات ہوتے ہیں۔ سڑکوں پر روزانہ ٹریفک کے حادثات میں سینکڑوں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے اور یہ محض اس لئے ہو رہا ہے کہ قوانینِ تو موجود ہیں پر ان کے اطلاق کی طرف کما حقہ توجہ نہیں دی جا رہی۔
ایک چینی کہاوت ہے کہ مچھلی ہمیشہ اوپر سے سڑتی اور گلتی ہے یعنی تبدیلی اوپر سے آئے تو اس کے اثرات زیادہ تیزی سے سامنے آتے ہیں۔اب ذرا بات ہوجائے بین الاقوامی حالات کی جہاں روس اور یوکرین جنگ جاری ہے اور اس میں اگر چہ مجموعی طور پر روس کا پلڑا بھاری ہے کیونکہ اس کے پاس فوج اور ایمونیشن کی کوئی کمی نہیں تاہم اس بات کا اعتراف اب سب ہی کرنے لگے ہیں کہ یوکرین نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر مزاحمت کی ہے۔روس نے مشرقی یوکرینی شہر سیؤیروڈونیسٹک پر قبضے کی خاطر مزید فوجی کمک طلب کر لی ہے، یوکرینی فوج کا کہنا ہے کہ اس محاذ پر روسی افواج کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے تاہم روسی طاقت کا زیادہ دیر تک مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ لوہانسک ریجن کے گورنر سرگئی گوآدی نے میڈیا کو بتایا کہ ڈونباس ریجن کے اس اہم صنعتی شہر کے کچھ مقامات پر روسی افواج پسپائی پر مجبور ہوئی ہیں۔
روسی افواج نے اس وقت اپنی تمام تر توجہ حکمت عملی کے حوالے سے انتہائی اہم شہر سیویروڈونسٹک پر ہی مبذول کر رکھی ہے۔ گوادی کے مطابق یوکرینی افواج مزید دو ہفتوں تک اس شہر کا دفاع کرنے میں کامیاب رہ سکتی ہیں لیکن روس کی طاقت ور فوج کا ایک طویل عرصے تک مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہو گا۔روس کے ساتھ مذاکرات کے یوکرینی سربراہ کا کہنا ہے کہ وہ روس کے ساتھ مذاکراتی عمل سے قبل اپنی دفاعی پوزیشن بہتر بنانا چاہتا ہے۔ اس تناظر میں کییف نے مطالبہ کیا ہے کہ مغربی ممالک اسے جدید ہتھیار فراہم کریں تاکہ روسی حملوں کو ناکام بناتے ہوئے مذاکرات کی میز پر اسے دبا میں لایا جا سکے۔
ڈیوڈ ارکھمیا نے مزید کہا کہ بہتر دفاعی صلاحیت ہی ماسکو حکومت کے ساتھ متوازن مذاکرات کا باعث ہو سکے گی۔لوہانسک کے گورنر گوآدی کا کہنا ہے کہ اگر مغربی ممالک یوکرینی فوج کو جدید اسلحہ فراہم کرتے ہیں تو کییف حکومت اپنی مزاحمت میں زیادہ بہتری لا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ چاہئیں تاکہ یوکرینی فوجی سب سے پہلے روسی توپخانے کو تباہ کریں اور اس کے بعد روسی بری فوج خود ہی پسپائی پر مجبور ہو جائے گی۔واضح رہے کہ امریکہ کے علاوہ جرمنی بھی اعلان کر چکا ہے کہ وہ یوکرین کو درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ فراہم کرے گا۔
یہ راکٹ دس تا چالیس کلو میٹر دور تک مار کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ کییف حکومت کو دئیے گئے مغربی اسلحے کی وجہ سے ہی یوکرینی فوج روس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔اگر یوکرین کو مزید ہتھیار فراہم کیے جاتے ہیں تو روس کیلئے مشکلات ہو سکتی ہیں۔ اس صورتحال میں امریکہ نے کہا ہے کہ یہ جنگ طویل ثابت ہو سکتی ہے۔ادھر یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے روسی حملے کے سو دن مکمل ہونے کے موقع پر ملکی فوج کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملکی فوج کی قربانیاں یاد رکھی جائیں گی۔عوام سے اپنے نشریاتی خطاب میں زیلنسکی نے کہا کہ جب چوبیس فروری کو روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا تو یہ بات کسی کے ذہن میں نہیں تھی کہ اس ریاست کی افواج اور شہری اتنے طویل عرصے تک اپنے ملک کا دفاع کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔یوکرینی صدر نے مزید کہا کہ کئی عالمی رہنماؤں نے انہیں ملک سے فرار ہونے کا مشورہ بھی دیا تھا لیکن سو دن کے بعد نہ صرف وہ بلکہ تمام ملک ہی سرخرو رہا ہے۔