پائیدار ترقی مو جود دور کا اہم مسئلہ ہے ترقی یا فتہ قوموں نے ہزار سال پہلے پائیدار ترقی کیلئے منصوبہ بندی کی تھی، ترقی پذیر مما لک اس وقت منصوبہ بندی میں لگے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے اب تک پائیدار ترقی کی منصو بہ بندی بھی نہیں کر پائے بر طا نیہ‘ امریکہ‘ جر منی‘ سوئٹزر لینڈ‘جا پا ن اور چین میں جنگلات، با غات اور انا ج اُگا نے والی زمینات کو پائیدار ترقی کا ایک ستون قراردیا گیا ہے اس کا دوسرا ستون تاریخی عمارات‘ ثقا فتی ورثہ اور ما حولیاتی تحفظ ہے‘ تیسرا ستون افرادی قوت کی ترقی مر دوں اور عوتوں کے مسا وی حقوق کو قرار دیا جا تا ہے اس کا چوتھا ستون سما جی تحفظ اور بنیا دی ڈھا نچے کی فراہمی ہے ان تما م کا موں میں منا سب توازن اور اعتدال کو پائیدار ترقی کہا جا تا ہے اگر کسی جگہ تاریخی عمارت کو منہدم کر کے سکول بنا یا گیاتو اس کو پائیدار ترقی کا نا م نہیں دیا جا ئے گا، اگر کسی جگہ جنگل کو کا ٹ کر سڑک بنا ئی گئی تو اس کو پائیدار ترقی نہیں سمجھا جا ئیگا۔
اگر کسی مقام پر معدنی وسائل کو ضا ئع کر کے ہسپتال یا کالج بنا یا گیا تو اس کو پائیدار تر قی نہیں کہا جائیگا اگر کسی جگہ بہت بڑا ہو ٹل یا پلا زہ بن گیا اور نکا سی پا نی دریا میں ڈالا گیا تو اس کا شمار پائیدار ترقی میں نہیں ہو گا اگر کسی مقا م پر بڑا ہسپتال بن گیا اور اسکی ساری غلا ظتیں قریبی آبادی کو جا نیوالے راستے پر ڈال دی گئیں تو یہ پائیدار ترقی کے بر عکس کا م ہو گا یہ ایک نا زک اور لطیف موضوع ہے اس کو پہلی بار 1971ء میں برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو (Rio De Genero) میں منعقد ہ ما حو لیا تی کا نفرنس میں زیر غور لا یا گیا گذشتہ نصف صدی کے اندر اس پر بہت زیا دہ کام ہوا ہے ما حو لیا تی تحفظ کے ما ہرین کہتے ہیں کہ جس طرح سڑ ک، سکول، پل اور ہسپتال انسانی آبا دی کی ضروریات ہیں اس طرح مٹی، پانی اور ہوا کو آلو دگی سے بچا نا دوسری مخلو قات کی ضروریات کا در جہ رکھتی ہیں دنیا کے حسن کو بر قرار رکھنے کیلئے پو دوں اور جڑی بو ٹیوں کا تحفظ بھی لازم ہے پر ندوں اور کیڑے مکوڑوں کا تحفظ بھی ضروری ہے۔
جنگلی حیات‘ شیر‘ چیتے‘ بندر‘ لنگور‘ بھیڑیے اور ریچھ کا تحفظ اور ان کی افزائش نسل کا ساما ن بھی لازم ہے یہ سب مل کر ہمارا ماحو لیاتی نظام تشکیل دیتے ہیں یہ سب ہمارے ایکو سسٹم (Eco system) کے اجزاء ہیں 1982 میں ایک بار پھر ریوڈی جنیرو میں ما حو لیاتی کانفرنس ہوئی 1992میں بیجنگ میں ریو پلس کے نا م سے ما حو لیاتی کا نفر نس ہوئی 2000ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اگلے 15 سالوں کیلئے پائیدار ترقی کے اہداف مقرر کر کے ممبر ملکوں کو ان اہداف کے حصول کا پابند بنایا ان کا نام میلینم ڈویلپمنٹ گو لز (MDGs) رکھا گیا 2016ء میں جا ئزہ رپورٹ آنے کے بعد اگلے 15سالوں کیلئے نئے اہداف رکھے گئے ان کو پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) کا نا م دیا گیا انگریزی میں پائیدار ترقی کو سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی قوم اپنے قدرتی ماحول‘ اپنے تاریخی ورثے اور اپنے قدرتی وسائل کو بر باد کر کے کارخانے پلا زے اور عما رتیں کھڑی کرنے کو ترقی کا نا م نہ دے سڑک‘ ہسپتال‘ کا لج اور سکول بے شک بنائے مگر قدرتی ما حول کو سب سے پہلے تحفظ دے‘پا کستان اور افغانستان اب تک اس معا ملے میں پیچھے ہیں 2030 کیلئے جو اہدف رکھے گئے ہیں ان کو حا صل کرنے کیلئے ہمیں سرکا ری اور عوامی سطح پر آگا ہی پھیلا نے کی ضرورت ہے۔