فطرت کا قانون ہے کہ ہر شے ترقی کی منازل طے کرنے کے بعد اپنی اصل کی جانب لوٹتی ہے اور شاید اِس اصول کا اطلاق ذرائع آمدورفت پر بھی ہوتا ہے جن میں ”دو پہیوں کی سواری سائیکل (بائسیکل) متبادل نہیں بلکہ ”آمدورفت کا بنیادی ذریعہ“ رہا ہے‘ اور دنیا کی کئی ترقی یافتہ اقوام اِسی ایجاد پر انحصار کرتی ہیں اِس لئے سفر ہے شرط جو باعث تندرستی بھی ہے کہ سائیکل کے ذریعے سفر کرنے والے بیش قیمت ایندھن اور توند پر تہہ در تہہ چڑھی چربی سے باآسانی نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ یادش بخیر‘ اگر حال سے ماضی کی طرف سفر کیا جائے تو سائیکل سے استفادہ اِس قدر عام تھا کہ سرکاری اہلکار بھی فخریہ اِسی کی سواری کرتے تھے لیکن پھر سہولیات کی بھرمار نے صحت مند بودوباش چھین لیا ہے۔
پٹرول و ڈیزل پر غیرضروری انحصار کرنے والے ایسے تمام لوگوں کو سائیکل کی جانب متوجہ ہونا چاہئے جو کسی بیماری یا معذوری کا شکار نہیں اور جنہیں بہ امر مجبوری گاڑی میں سفر کرنا پڑتا ہے۔سائیکل کی پیدائش کم و بیش 200 برس قبل ہوئی اور تب یہ موجودہ شکل سے بہت مختلف یعنی پیڈل کے بغیر تھی جسے جرمن انجنیئر ’کارل فان ڈائس‘ نے تخلیق کیا‘ جب وہ اسے پاؤں سے دھکیلتے جرمنی کی سڑکوں پر نکلے تو لوگ حیرت سے تکتے رہ گئے۔ اِس کے بعد 1838ء میں سکاٹ لینڈ کے ایک باشندے نے سائیکل میں تبدیلیاں کیں اور سب سے بنیادی تبدیلی پیڈلز کا اضافہ تھا لیکن بریک نہیں لگائی گئی جس کی وجہ سے سائیکل کا پہلا معلوم حادثہ بھی سکاٹ لینڈ ہی میں ہوا جب ایک صاحب کی سائیکل ایک بچی کو لگ گئی اور اُنہیں پانچ شلنگ جرمانہ کیا گیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہوئیں اور آج سائیکل دنیا بھر میں اہم ضرورت کے طور پر استعمال ہو رہی ہے اور یہ ہر سال کروڑوں کی تعداد میں بنائی اور فروخت کی جا رہی ہیں۔ ایک وقت تھا جب سائیکل مالی و سماجی حیثیت کی علامت ہوا کرتی تھی لیکن جب سائیکل ہر کس وناکس کے پاس آگئی تو اشرافیہ اور افسر شاہی نے اِس سے کنارہ کشی اختیار کر لی کیونکہ وہ بہرصورت دوسروں سے ممتاز (الگ) نظر آنا چاہتے تھے۔ سائیکل کی دوسری ترقی یافتہ شکل وہ تھی جس میں ایک ”ڈائنامو“ لگا دیا جاتا تھا اور یوں سائیکل کی پیشانی پر دلہن کے جھومر کی طرح ایک عدد لائٹ لگا دی جاتی تھی۔ سائیکل اِس قدر عام تھی کہ اِس کا ذکر ’اردو ادب‘ میں بھی ملتا ہے‘ہر سال دنیا بھر میں اندازاً ”ایک ارب“ سے زیادہ سائیکلیں تیار ہوتی ہیں اور اس میں چین کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔
یورپی ملک ڈنمارک کے دارالحکومت ’کوپن ہیگن‘ کو ”سائیکلوں کا شہر“ کہا جاتا ہے‘ جہاں سائیکلوں کی تعداد گاڑیوں سے زیادہ ہے اور اس کیلئے انتظامیہ مسلسل کوششیں بھی کرتی آرہی ہے جس سے ماحول کو بہت فائدہ ہوا ہے اور اب شہر کی پہچان ہی سائیکل ہے۔ دنیا بھر میں سائیکلوں کا دارالحکومت ہونے کا اعزاز ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم کو بھی حاصل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی کا ساٹھ فیصد سے زائد حصہ روزانہ سائیکل استعمال کرتا ہے۔
سائیکل سواری کے متعدد فوائد ہیں‘ اس کی یاری جیب پر بھاری نہیں بلکہ سستی پڑتی ہے لیکن پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ سائیکل کی قیمت بھی عام آدمی کی پہنچ سے بلند ہو گئی ہے تو اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں درآمد شدہ ایندھن کی بچت سے قومی زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ کم کرنا چاہتی ہیں تو بینکوں سے سائیکل کی خریداری کیلئے بلاسود قرضوں کا اجرأ ہونا چاہئے۔ سوچئے کیا آپ کے پاس پیٹرولیم مصنوعات کے چنگل سے نکلنے اور مہنگائی کا مقابلہ کرنے کیلئے ”سائیکل جیسی“ آزمودہ و قابل عمل نیز ماحول دوست اور فوری نتائج دینے والی کوئی دوسری تجویز ہے؟