مگر روشنی کی ایک کرن 

اس اندھیرے میں روشنی کی کرن ضرور نمودار ہوگی۔یہ اندھیارے چھٹ جائیں گے۔ہم سے کمزور تر ممالک بھی ہیں۔جو عالمی بینک کے کھاتوں میں نادہندہ ہو چکے ہیں۔سری لنکا کولے لیں۔ہم بھی ان دنوں معاشی مشکلات کا شکار ہیں، ممالک مشکلات اور آزمائشوں سے نکل بھی آتے ہیں۔مگر یہ سب کچھ اتحاد و اتفاق سے ہوگا۔ ہمارے دلوں میں لالچ اور خود غرضی نے بھی تو ڈیرہ ڈال رکھے ہیں۔جو لوگ ٹیکس دینے کے پابند ہیں وہ چھپ چھپا کر پھرتے ہیں۔اگر ٹیکس ہی کی وصولی سو فیصد ہو جائے تو ارضِ پاک میں غربت کا خاتمہ ہو جائے۔جو مالدار ملک ہیں مثلاًجرمنی کو لیں۔وہاں کی دولت دیکھیں۔
اگر ملک زر ومال جہاں پر قدرت رکھتا ہے تو یہ سب عوام کے ٹیکس دینے کی وجہ سے ہے۔وہ ٹیکس دیتے ہیں توجوا ب میں ان کو مراعات ملتی ہیں۔اگر عوام ٹیکس نہ دیں تو کسی ملک کے خزانے میں رقم کہاں سے آنے لگی۔ مگر ہم لوگوں نے خود ہی اپنے آپ کو ڈبو رکھا ہے۔پھر کرپشن کاناسور ہے جس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔عام آدمی کی زندگی تنگ ہوئی جاتی ہے۔گرانی کے پھنکارتے ہوئے ناگ چار سُو پھیلے ہوئے ہیں۔اس آگ کے لال زبانیں ہلاتے ہوئے شعلے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔چار اطراف قوتِ خرید ناتواں ہوئی جاتی ہے۔ نارسائی بھڑکیلے شعلوں سے اپنی ہنڈیا کے کنارے خود جلا رہی ہے۔
کسی کی سمجھ میں نہیں آتاکہ اب کرنا کیا ہے۔۔اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔پٹرول تیس روپے مہنگا ہوا تو ہفتہ بھر گذرنے سے پہلے تیس روپے فی لیٹر مزید گراں کر دیا۔ بجلی سات روپے فی یونٹ اور مہنگی کر دی گئی۔ گھروں میں سرکاری گیس کے چولھے اس گرمی میں ٹھنڈے پڑے ہیں۔مگر بجلی اور گیس کے بھاری بھرکم بل منہ چڑا رہے ہیں۔میخوں میں ٹانگے ہوئے بجلی کے بل جیسے گھر کے سربراہ کی نقلیں اتارتے ہیں۔اس نے کوکے میں اٹکا دیا تھا کہ ان کو جمع کروانا ہے۔مگر رقم کا بندوبست کہاں سے ہوگا۔ ہر محاذ پر مشکلات کا سامنا ہے۔
اگر دوست ممالک نے اور عالمی مالیاتی اداروں نے امداد نہ دی اور قرض کی رقم منظور نہ کی تومشکلات میں اور بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔ان دنوں کی گرانی نے یہ دن دکھایا ہے کہ لوگ گھریلو استعمال کی اشیاء بیچ رہے ہیں۔مجھے بہت افسوس ہوا جب میں نے ایک طالب علم کو جو مقابلے کے امتحان کی تیاری میں مصروف ہے۔ساتھ کسی پرائیویٹ سکول میں تیس ہزار روپے بھی کماتا ہے۔اس نے قسطوں پر موبائل خریدا تاکہ اس کی پڑھائی کے لئے مددگار ثابت ہو۔پچیس ہزارکا موبائل دس ہزار اوپر میں خرید لیا۔تین چار ماہ کے بعد دو ایک دن پہلے ہی اس نے یہ موبائل بیچ دیا۔ میں نے پوچھا ایسا کیوں کیا۔
اس نے کہا کیا کریں بیوی بچے ہیں۔جن کے خرچے ہیں۔ پھر اس حد تک کہ مجھے دو دو ہزار کے لئے دکانداروں نے آوازے دینے شروع کردیئے ہیں۔سو میں نے بیس ہزار میں موبائل بیچ کر یہ قدم اٹھایا۔ اس طرح دوسرے لوگ بھی ہیں جو انتہائی کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں۔اگر اہلِ دولت ٹیکس دینا شروع کر دیں تو عام آدمی کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے۔کیونکہ جو ٹیکس دینے کے ذمہ دار ہیں وہ اپنے آپ کو چھپاتے ہیں۔جن کی وجہ سے غربت زیادہ ہو رہی ہے ان کو درکارہے کہ وہ ٹیکس سے چھپ کر پوشیدہ اپنی دولت میں اضافہ نہ کریں۔ جن کی ذمہ داری ہے ان کو ہوش کے ناخن لیناچاہئیں۔ اب ایسے لوگوں کو سامنے آنا چاہئے جو اہل درد کی تکلیف کو دور کریں۔یعنی ہم سب ملک کر حالات کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں بھی قوم نے کئی مرتبہ چیلنجز کا سامنا کیا ہے اور کامیابی بھی حاصل کی ہے۔