عالمی غذائی بحران کا خدشہ

روس اور یوکرین دنیا کا تیس فیصد گندم پیدا کرتے ہیں اور اگر ان کی باہمی جنگ جاری رہتی ہے تو دنیا بھر میں غلے کی فراہمی متاثر ہونے، قیمتیں بڑھنے اور عالمی سطح پر غذائی بحران پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔یوکرین پر روسی جارحیت سے پہلے کورونا وائرس کے بعد طلب میں اضافے، پیداوار میں کمی، موسم کی شدت، کھاد کی فراہمی میں مشکلات اور اس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، خوراک کے ذخائر میں کمی، تیل کی بلند قیمتوں، رسد میں رکاوٹوں اور برآمدات اور محصولات پر قدغنوں کی وجہ سے دو سال سے غذائی مارکیٹ بحران کا سامنا کررہی تھی۔اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ خوراک کے مطابق حملے کے بعد یوکرین میں جنگ سے سڑکوں، ریل پٹڑیوں اور غلے کے گوداموں کی تباہی، اس کی بندرگاہوں کی بندش اور بحیرہ اسود کی روسی ناکہ بندی کے باعث نہ صرف یوکرین کے پاس موجود غلے کے ذخائر پھنس گئے ہیں بلکہ نئی پیداوار کی کٹائی اور اس کے لیے گوداموں کا بندوبست بھی مشکل ہوگیا ہے۔
جنگ کی وجہ سے یورپ نے روس پر درآمدات اور اس کے بحری جہازوں پر جو پابندیاں لگائی ہوئی ہیں ان کی وجہ سے بھی بحیرہ اسود اور بحیرہ بالٹک میں بحری راستوں سے گندم کی ترسیل میں تعطل آگیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جنگ کی وجہ سے خوراک سمیت دیگر سامان سے لدے بحری بیڑوں کا بیس فیصد فی الحال مختلف بندرگاہوں پر پھنسے کھڑے ہیں۔یوکرین بحران کے بعد یوکرین اور روس کی برآمدات میں رکاوٹ آئی تو اس سے ایک اندازے کے مطابق خوراک کی اوسط قیمتیں عالمی سطح پر پچھلے پانچ سال میں تقریبا ساٹھ فیصد بڑھ گئی ہیں جن میں غذائی اجناس کی قیمتیں ستر فیصد اور تیل کی 137 فیصد بڑھی ہیں۔
عالمی ادارہ خوراک کا خوراک و زراعت اشاریہ 1990 کے بعد بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے اور ابھی اس میں اضافہ کا رجحان باقی ہے۔ صارفین قیمت کے اشاریہ میں فی صد اضافے کی شرح مختلف ممالک میں مختلف ہے مگر لبنان، جو خوراک کی درآمدات کا بشمول یوکرین کی گندم کا محتاج ہے، میں تو یہ 2020 سے تین ہزار فیصد پوائنٹس سے بھی زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق صارفین قیمت کے اشاریہ میں خوراک سب سے بڑا عنصر ہے جو اوسطا ًچالیس فیصد اور پاکستان میں مصارف زندگی کا پچاس فیصد ہے۔عالمی ادارہ خوراک کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں اکیاسی کروڑ افراد شدید بھوکے، اٹھائیس کروڑ بھوک کے دہانے پر اور تریالیس ممالک میں پانچ کروڑ افراد قحط کے دہانے پر ہیں۔ 
ایک اندازے کے مطابق کانگو میں چھبیس فیصد، افغانستان میں تئیس فیصد، نائجیریا میں بیس فیصد اور یمن میں انیس فیصد افراد خوراک کی کمی اور مہنگائی سے متاثر اور فوری مسلسل مدد کے محتاج ہیں۔پچھلے سال جولائی تک یوکرین نے دنیا بھر میں چوبیس ملین ٹن گندم اور پینتیس ملین ٹن جوار برآمد کیا۔ اس سال اس کی برآمدات میں ساٹھ فیصد کمی ہوئی ہے اور ابھی ناکہ بندی جاری ہے۔ اس کی وجہ سے یوکرین تو زرمبادلہ مگر دنیا اپنے "غلے کی ٹھوکری" سے محروم ہوجائے گی۔یوکرین اور روس سے غذائی اجناس کی رسد میں کمی کے بہت سے ایسے ممالک کیلئے تباہ کن نتائج ہوں گے جو ان دونوں ممالک پر اپنی خوراک کی ضرورت کیلئے پچاس فیصد انحصار کررہے تھے۔مصر ان دونوں ممالک سے اسی فیصد غلہ منگواتا تھا۔غذائی اجناس کی مہنگائی کی وجہ سے مختلف ممالک، جیسے ارجنٹینا، انڈونیشیا اور یونان  میں عوامی احتجاج بھی ہوئے ہیں۔
عالمی ادارہ خوراک نے کہا ہے حملے سے پہلے کے آٹھ مہینوں میں بحیرہ اسود پر یوکرین کی سات بندرگاہوں سے اکیاون ملین ٹن گندم باہر گئی تھی مگر یوکرین پر روسی حملے کی صورتحال میں اس وقت بیس لاکھ ٹن گندم یوکرین کی بندرگاہوں پر پھنسی پڑی ہے کیوں کہ روس نے ان بندرگاہوں کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ اگر یہ ناکہ بندی برقرار اور گندم کی ترسیل مزید ممکن نہ ہوسکی تو آنے والے مہینوں میں عالمی غذائی قلت، بڑے پیمانے پر بھوک اور قحط سالی کا روپ دھار سکتی ہے۔یاد رہے یوکرین  2020 میں عالمی ادارہ خوراک، جو دنیا بھر میں خوراک کی کمی کے شکار افراد کو امداد فراہم کرنے کا سب سے بڑا ادارہ ہے، کو غذائی اجناس کا سب سے بڑا فراہم کنندہ تھا جس نے ساڑھے چار لاکھ میٹرک ٹن اجناس فراہم کی تھیں۔روس پر الزام ہے کہ اس نے یوکرین کے بحری ناکہ بندی رکھی ہے اور وہ یوکرین میں اپنے زیر کنٹرول علاقوں سے غذائی اجناس منتقل کررہا ہے تاہم اس نے اس سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے اگر اس کے خلاف عائد بین الاقوامی پابندیاں ختم کی جائیں تو وہ یوکرین میں اپنے زیر قبضہ علاقوں میں برآمدی راہ داریاں قائم کرے گا جن سے عالمی سطح پر اشیائے خوراک کے بحران کا تدارک کیا جا سکے گا۔
اس ضمن میں بین الاقوامی برادری پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔کہ وہ روس کے خدشات کو ختم کرنے کیلئے امریکہ اور نیٹو ممالک کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کیلئے تیار کریں۔ روس کے مطابق موجودہ صورت حال میں وہ اپنی غذائی اجناس کی پیداوار اور برآمدات بڑھائے گا۔ سال کے آخر تک وہ 37 ملین ٹن زرعی اجناس برآمد کرے گا اور اگلے سال پچاس ملین ٹن غذائی اجناس برآمد کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکا ہے۔ان حالات میں اب تک بیس سے زیادہ ممالک نے مقامی مارکیٹ میں قیمتوں کے استحکام اور عوام کو مہنگائی سے بچانے کی خاطر غلے کی برآمدات اور نئے برآمدی لائسنسوں کا اجرا روک دیا ہے اور برآمدات پر بڑھا دئیے ہیں۔اس پر طرہ یہ کہ اس سال کھاد کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں جس تیز رفتاری سے بڑھیں اس کی وجہ سے بھی کسانوں نے دنیا بھر میں زیرکاشت رقبہ کم کردیا چنانچہ اس سال پیداوار کم رہنے کی توقع ہے۔ اگر کھاد کی قیمت اور رسد کے مسئلے حل نہ ہوئے تو اگلے سال خوراک کی فراہمی دنیا بھر میں بہت بڑا مسئلہ بن جائے گی۔
 یاد رہے روس اور چین کھاد کے بڑے برآمد کندگان میں سے ہیں اور روس پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی تجارتی پابندیاں اور چین کی جانب سے کھاد کی برآمدات پر پابندی کھاد کے عالمی بحران میں اہم عامل ہیں۔مغربی ممالک کی تنظیم جی سیون کے وزرا ء خارجہ اجلاس نے اپنے اعلامیہ میں پچھلے دنوں روس پر عالمی غذائی بحران پیدا کرنے پر سخت تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ وہ مشترکہ طور پر خوراک کی عالمی فراہمی یقینی بنانے کیلئے ممالک کی مدد کریں گے مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ روس کو جنگ روکنے، یوکرین کی ناکہ بندی ختم کرنے، یوکرین سے غلے کی ترسیل کیلئے راہداریاں کھولنے اور اسے اپنی غذائی برآمدات بڑھانے پر آمادہ کرسکیں گے۔
اب تک تو ایسے کوئی آثار نظر  نہیں آرہے۔ روس کے مفادات جب تک خطرے میں رہیں گے اس وقت تک روس نہ تو یوکرین کے ساتھ کسی کو تجارت کرنے دیگا اور نہ ہی جنگ کے خاتمے کیلئے کوئی شرط تسلیم کریگا۔اس میں ا ب کوئی شک نہیں رہا کہ یوکرین اور روس کی جنگ نے پوری دنیا کو بری طرح متاثر کیا ہے اور جب تک جنگ کے شعلوں نے یوکرین کو لپیٹ میں نہیں لیا تھا تو کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ ملک باقی دنیا کیلئے کس قدر اہم ہے۔ اس وقت پوری دنیا ایک گلوبل ویلج ہے، تمام ممالک ایک دوسرے پر کچھ اس طرح انحصار کرتے ہیں کہ ایک ملک میں جنگ یا بد امنی سے دیگر ممالک بھی پوری طرح متاثر ہونے لگتے ہیں۔ 
یہاں یہ امر بھی قابل ذ کر ہے کہ ایسے حالات میں مصالحتی کوششوں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ کہ ممالک کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کا کوئی ایس میکنزم موجود ہو کہ ان مسائل کو زیادہ شدت اختیار کرنے سے روکا جا سکے۔ بد قسمتی سے اس وقت اقوام متحدہ کا کردار ایک تماشائی سے زیادہ نہیں، طاقت ور ممالک کے معاملات میں وہ زیادہ تر بے بس نظر آتا ہے۔ روس اور یوکرین جنگ میں بھی یہی صورتحال نظر آرہی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ کے کردرا کو زیادہ فعال بنانے کی ضرورت ہے تاکہ رکن ممالک کو پیش آنے والے تنازعات اور باہمی اختلافات کو حل اس سے پہلے نکالا جا سکے جب اس کے اثرات دیگر ممالک تک نہ پھیلے ہوں۔
روس یوکرین تنازعہ کوئی راتوں رات سامنے نہیں آیا بلکہ طویل عرصے سے یہاں پر بے چینی تھی اور روس کو یوکرین میں امریکی پالیسی پر اعتراض تھا جو یوکرین کو نیٹو فوجی سرگرمیوں میں شریک کر رہا تھا۔ ایسے حالات میں  پاکستان جیسے زرعی ملک کو درپیش غذائی قلت اگر باعث تشویش بھی ہے تو ساتھ ہی لمحہ فکریہ بھی۔ کہ کیوں زرعی ملک ہوتے ہوئے ہم نے زراعت کے ڈھانچے کو جدید خطور پر استوار نہیں کیا۔ قدرت نے ہمیں ہر طرح کے موافق حالات سے نوازا ہے۔ زمین زرخیزہے، پانی کی فراوانی بھی ہے تاہم ہم نے نہ تو دستیاب زرعی زمین سے بھر پوراستفادہ کیا نہ ہی غیر زرعی اور بنجر زمینوں کو سرسبز بنانے کیلئے کوئی بھر پور کوششیں کیں ا ب وقت آگیا ہے کہ زراعت کے شعبے کو نظر انداز کرنے کی روش بدل دیں۔