صحت کار ڈکے منصوبے کو اگر ملکی تاریخ کا اہم اور ایک بہت ہی مفید منصوبہ قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ جس طرح کی سہولیات صحت کارڈ پر ایک عام شہری کو حاصل ہیں وہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی کم ہی شہریوں کوحاصل ہوں گی، تاہم یہاں پر یہ امر باعث تشویش ہے کہ اس مفید منصوبے کے ثمرات عوام تک موثر انداز میں پہنچنے کے عمل پر بعض ہسپتالوں میں عمل نہیں ہورہا۔حقیقت تو یہ ہے کہ صحت کے معاملے پر سیاست نہیں کرنی چاہئے۔اس منصوبے کے مطابق پاکستان کا ہر باسی اپنی کسی بیماری کا علاج کرانے کسی بھی سرکاری یا نجی ہسپتال جا کر وہاں کی انتظامیہ کو اپنا شناختی کارڈ دکھلا کر مفت علاجِ کروا سکتا ہے اور اس کے شناختی کارڈ کو اس کا صحت انصاف کارڈ تصور کیا جائے گا۔ اس مقصد کیلئے حکومت نے ملک کے ہر حصے میں ان نجی ہسپتالوں کے نام بھی مشتہر کر دئیے تھے کہ جہاں پر سرکاری ہسپتالوں کے علاوہ مفت علاج کی یہ سہولت میسر تھی، ہمیں اپنے بعض قارئین نے مطلع کیا ہے کہ بعض نجی ہسپتال حکومت کے اس موثر منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے مریضوں کو یہ کہہ کر ان کے علاج سے پہلے جو ضروری میڈیکل ٹیسٹ ہوتے ہیں وہ نہیں کر رہے کہ حکومت ان کو اس مقصد کیلئے ضروری فنڈز فراہم نہیں کر رہی۔
کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ حکومت عام پبلک کیلئے ایک ٹول فری فون نمبر کا بھی اعلان کر دیتی کہ جس پر جنرل پبلک فون کر کے حکومت کو بتلا سکتی کہ فلاں فلاں ہسپتال میں مریضوں کا مفت علاج کرنے سے یہ کہہ کر انتظامیہ گریز کر رہی ہے کہ متعلقہ سرکاری ادارے ان کے اس ضمن میں بل نہیں پاس کر رہے اور ان کے پاس ان میڈیکل ٹیسٹوں کیلئے رقم کا فقدان ہے ہمیں اس قسم کی بھی اطلاعات ملی ہیں کہ بعض ہسپتال کہ جن کے نام حکومت کی فراہم کردہ فہرست میں مفت علاج کرنے کیلئے موجود ہیں سرے سے ہی انکاری ہیں کہ وہ یہ سہولت مریضوں کو بہم نہیں دے سکتے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ان پڑھ غریب مریض آ خر جائے تو کہاں جائے۔صحت انصاف کارڈ پر عمل درآمد کی سخت مانیٹرنگ کی ضرورت ہے۔ اب تذکرہ ہوجائے عالمی مہنگائی اور غذائی بحران کا جہاں روس اور یوکرین کی جنگ کے باعث دنیا بھر میں کھانے پینے کی اشیا ء کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی سے غریبوں کے فاقوں کی نوبت آ گئی ہے۔ لیکن سرمایہ کار خوب منافع کما رہے ہیں۔
دنیا ابھی کورونا کے اثرات سے باہر نکلنا شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ روس اور یوکرین کی جنگ چھڑ گئی۔ اس سے اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوا اور غذائی قلت پیدا ہو گئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ روس اور یوکرین دونوں ممالک گندم اور سورج مکھی کے تیل جیسی زرعی اجناس کے عالمی سپلائرز ہیں۔دوسری طرف خوراک اور دیگر اشیا ء کی زیادہ مانگ سے پیسہ کمانے کی کوشش کرنے والے سرمایہ کار قیمتوں میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کر رہے ہیں اور اس رجحان میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ نیوز ویب سائٹ دی وائر کے مطابق، پیرس کی مِلنگ گندم مارکیٹ، جو یورپ کیلئے بینچ مارک ہے، میں بھی سٹہ بازوں کے شیئرز میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یعنی ان سرمایہ کاروں کا جن کا بنیادی مقصد منافع کمانا تھا۔ انہوں نے گندم کے مستقبل کے کانٹریکٹس یا ٹھیکے کے معاہدے خریدنے شروع کردئیے ہیں۔ ایسے تاجر جو خود اجناس خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، وہ اجناس خرید کر اسٹاک کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں وہ روٹی کے کارخانوں کو گندم فراہم کر کے خوب کمائیں‘یعنی اس موقع پر جب پوری دنیا پر مہنگائی چھائی ہوئی ہے سرمایہ کار طبقہ اس مرحلے پر کمائی میں مصروف ہے اور اس کمائی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنے کی منصوبہ بندی بھی کر رہا ہے جو کسی بھی طرح مثبت رجحان نہیں۔