دنیا حملوں کی زد میں ہے۔ معاشی حملے‘ سیاسی بالادستی کیلئے حملے‘ مہنگائی کے حملے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے حملے کبھی بھی‘ اِس طرح بیک وقت نہیں دیکھے گئے! اِن حملوں کو پسپا کرنا آسان ہے جس کے لئے بہادری کے ساتھ اتحاد و اتفاق کی بھی ضرورت ہے اور بہادروں کی پہچان ہمیشہ یہی ہوتی ہے کہ یہ مقابلہ کئے بغیر کبھی ہار نہیں مانتے (مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا)۔ ماحولیاتی تبدیلی ایک ایسا شعبہ ہے جہاں پوری قوم بطور فرد اور ادارے اگر متحد ہو کر مربوط حکمت عملی وضع کریں تو مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسی ذہنیت کے ساتھ یونیورسل سروس فنڈ (یو ایس ایف) قائم کیا گیا جس کا پاکستان بھی حصہ ہے۔ آج کے (جدید) دور میں آب و ہوا کی تبدیلی محاورہ بن چکی ہے لیکن کیا ہم واقعی سمجھتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ اقوام متحدہ موسمیاتی تبدیلیوں کو درجہ حرارت اور موسم کے نمونوں میں طویل مدتی تبدیلیوں کے طور پر بیان کرتا ہے۔ ان تبدیلیوں نے جو کچھ (بگاڑ) پیدا کیا ہے وہ ریکارڈ سونامی‘ آتش فشاں پھٹنے‘ لینڈ سلائیڈنگ‘ مہلک گرمی اور تیزی سے برفانی تودے (گلیشیرز) پگھلنے کی وجہ سے ہیں۔ عالمی سطح پر اِن مضر ماحول اثرات (حالات) کو ”آئسوسٹیٹک ری باؤنڈ“ کہا جاتا ہے جو ایک سائنسی اور علمی اصطلاح بھی ہے۔ علوم فلکیات کے ادارے اور ماہرین کہتے ہیں کہ نظام شمسی میں بھی تبدیلیاں مشاہدہ کی گئی ہیں۔
ایک طرف کرہئ ارض کے باہر تغیرات رونما ہو رہے ہیں تو دوسری طرف کرہئ ارض کی سطح پر ایسی گیسوں کا اخراج ہو رہا ہے جو کرہئ ارض اور خلأ کے درمیان موجود تصوراتی دیوار (اُوزون گیس) کے تناسب میں بگاڑ پیدا کر رہی ہیں۔ بجلی کی پیداوار سے لیکر صنعتوں تک آگ جلانے کے لئے ایسا ایندھن استعمال کیا جاتا ہے جو ماحول کے لئے مضر ہے اور اِس کی وجہ سے سورج سے آنے والی حرارت (گرمی) زمین پر زیادہ مقدار میں پہنچ رہی ہے جس سے جملہ موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور یہ ایک ”تباہ کن“ عمل ہے‘ لیکن اِسے روکنا ممکن ہے۔ماحول دوستی اور ماحول کی درستگی یعنی ماحولیاتی تنوع بحال کرنے کے لئے صرف زبانی کلامی خواہشات کافی نہیں بلکہ اِس کے لئے حکومت اور ہر خاص و عام کو اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ماحول دوست ایندھن کا استعمال اپنانا ہوگا۔ دنیا کو صاف ستھرے اور قابل تجدید ایندھن کے ذرائع جیسی اہم تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف سیون (یو این ایس ڈی جی 7) جو سال دوہزارپندرہ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے قائم کردہ 17پائیدار ترقیاتی اہداف میں سے ایک ہے کا مقصد ”سب کے لئے سستی‘ قابل اعتماد‘ پائیدار اور جدید توانائی تک رسائی یقینی بنانا“ ہے۔
مذکورہ ہدف (یو این ایس ڈی جی سیون) کے حصول کا پاکستان بھی عالمی برادری سے عہد کر چکا ہے اور اِس کے تحت ”کلین اینڈ گرین انیشی ایٹوز“ یعنی ماحول دوست اقدامات کرنا ہیں۔ قابل تجدید توانائی کو جہاں بھی ممکن ہو استعمال کیا جانا چاہئے جبکہ یو ایس ایف نے دیہی اور دور دراز علاقوں کو مواصلاتی رابطوں کی فراہمی کیلئے شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیلی کام ٹاورز فراہم کئے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق اِس سلسلے میں اب تک 3710 موبائل فون ٹاورز کو شمسی توانائی پر منتقل کیا گیا ہے جبکہ مزید 1842 ٹاورز کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے گا بظاہر یہ ایک چھوٹا سا قدم لگتا ہے لیکن اس طرح کے چھوٹے چھوٹے ماحول دوست توانائی کے استعمال جیسے اقدامات بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔ مستقبل قریب میں شمسی توانائی کے استعمال سے پاکستان کی دیہی اور دور دراز علاقوں میں ’انٹرنیٹ کی براڈ بینڈ سروسز‘ بھی فراہم کی جائیں گی جس سے درس و تدریس کے شعبے میں انقلاب متوقع ہے۔ ہر پاکستانی اپنے اردگرد ماحول کو نقصان پہنچانے والے عوامل کو روک سکتا ہے اور جہاں انتخاب کا موقع آئے تو وہاں صاف ستھری اور قابل تجدید توانائی کے استعمال کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے‘ جو موجودہ اور آنے والی نسلوں کے پاکستان کیلئے زیادہ محفوظ‘ زیادہ صحت مند اور زیادہ ماحول دوست نتائج کا حامل طرزفکروعمل ہے۔