مشورہ مفت

آخر انھوں نے ایک آدھ جوڑے کی تو روز سلائی کرنا ہے۔تو کیا وہ یونہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔بجلی نہیں تو کیا ہوا کام تو کرنا ہے۔ان درزی حضرات کو مشورہ ہے کہ وہ سلائی کی مردہ موٹر کو نہ دیکھیں۔ وہ ہتھیاں جو پرانے زمانے کی یادگار سمجھ کرسنبھال لی تھیں نکال لیں۔ کیونکہ پرانا زمانہ پھر سے لوٹ آیا ہے۔وہی ہتھیاں مشین کو لگائیں اور اپنا کام چالو کریں۔ کیونکہ بجلی کیابھروسہ آئے نہ آئے۔پشاور کے سعید گیلانی نے فلموں کی شاعری میں کہا ”کی دم دا بھروسہ یار دم آوے نہ آوے“۔ اب بجلی کیا اعتبار کہ آوے نہ آوے۔ایک بار جو گئی تو خدا جانے کب آتی ہے۔سینکڑوں نہیں لاکھوں نہیں ارضِ وطن کے کروڑوں لوگ روزانہ اس کے انتظار میں آنکھیں سفید کئے بیٹھے رہتے ہیں کہ بجلی اب آئے اور اب آئے۔ مگر اس نے نہیں آنا ہوتا۔ہاں اس کے بڑوں کے دل پراگر رحم آجائے تو بھیج دیتے ہیں۔ ورنہ تو سربراہ بھی اس کے ہاتھوں پریشان ہیں اور ان کے بس میں اتنا ہے کہ وہ حکم جاری کر سکیں۔ باقی اس پر عمل کرنااو رہے۔ واپڈا والے اگر کسی بڑے کو بڑا مان لیں۔ حالانکہ پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔ پچھلے سربراہانِ مملکت نے ہر بڑے دن کے لئے یہ اعلان کیا کہ اس دن بجلی نہیں جائے گی۔مگر گئی اور دھڑلے سے گئی۔ اب پھر کہا گیا ہے کہ خبرداردو گھنٹے سے زیادہ بجلی کو لے کر نہیں جانا۔
مشورہ یہ بھی ہے کہ بھائی لوگ وہ گم شدہ لالٹینیں نکال کر رکھ لیں۔اب لائٹ نے تو آنا نہیں۔سو لالٹین سے کام چلالیں۔مگر لالٹین میں ڈالیں گے کیا۔مٹی کا تیل کون سا ارزان ہے۔چنگی چی والے نے جو حالات کے ہاتھوں ستایا اور بھرا بیٹھا تھااپنے رکشہ میں گدھا باندھ دیا۔ پھر ا س نے سواریاں اٹھائیں۔ وہ بھی خوش اور سواریاں بھی خوش۔کیونکہ اس کو بھی پتا اور سواریوں کو بھی علم ہے کہ کچے مکان والوں کو بارشوں سے دوستی زیب نہیں دیتی۔ سو وہ چنگ چی والا اب ٹریفک چالان سے بھی آزاد ہو چکا ہے۔خوب گھومتا پھرتا ہے۔اب غاروں کے دور کے انسانوں کا زمانہ لوٹ آیا ہے۔ہر شئے کہتے ہیں کہ اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ یہ کہاوت تو ہمارے ہاں بجلی آئے نہ آئے بہت صادق آتی ہے۔ مشورہ ہے کہ ہاتھ کی پنکھیاں نکال کر رکھ لو۔ چھت کا پنکھا نہیں چلے گا تو ہاتھ کی پنکھی پر تو زور چلے گا۔ہاتھ کے زور سے گرمی کو بھگایا جاسکتا ہے۔ساکت و جامد پنکھے کے نیچے اور کھڑے پنکھے کے آگے پنکھیا جھل رہے ہو ں کتنا پیارا سین ہوگا۔نئے زمانے میں سائنسی ایجادات سے کام لیا جاتاہے۔اگر ایجادات نہ ہوں تو پچھلے زمانے اور نئے زمانے میں فرق نہیں رہتا۔ ماضی تو اس لئے ماضی ہے نا کہ اس میں بجلی نہیں تھی۔ سوا سو سال پہلے پوری دنیا میں بجلی ناپید تھی۔
 جانے ان لوگوں نے اتنے بڑے طویل دورانیہ کے ماضی کیسے گذار لیا۔جب درزی کمائے گا نہیں توکھائے گا کیا۔کسی من چلے نے ازراہ مذاق نہیں بلکہ حسبِ ضرورت گلے میں دو ایک روٹیاں باندھ لی تھیں۔وہ چلا تھا احتجاج کرنے۔ ارے ایسے کیسے ہوتا ہے۔تین دن پہلے جب پٹرول کو آگ لگی تو اہلِ علاقہ جوق در جوق غول کے غول سڑک پر احتجاج کرنے کو نکلنے لگے۔ مجھ سے کہا آئیں میں نے کہا جائیں۔کچھ نہیں ہونے والا۔پٹرول ضائع نہ کریں مہنگا ہے خود کو آگ نہ لگائیں کچھ نہیں ہوگا۔کیونکہ عرصہ بیس سال سے بجلی کے بحران نے جو سر اٹھایا ہے تو اس کا سرکچلا نہیں گیا۔ خوب شور شرابا اور جلوس نکلے۔ پھر کیاہوگا آپ گھروں کو لوٹ آئیں گے۔ کیونکہ پولیس افسر آکر آپ سے سرِ راہ مذاکرات کرے گا۔ کہے گا کہ میں نے اوپر بات کر لی ہے۔آپ کے علاقے میں بجلی نہیں جائے گی۔ بیچارے عوام بھی اس وقت منہ میں لالی پاپ چوستے ہوئے گھروں کی راہ لیتے ہیں۔مگر دوسرے دن کنویں کی وہی رسیاں اور وہی بوکے۔
ایک نے گھی کا خالی ڈبہ ہاتھ میں اٹھا رکھا تھا اور ڈنڈی سے اس کو بجا بجا کر خلقت کو اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا۔مگر ”کون سنتاہے کہانی میری۔اور پھر وہ بھی زبانی میری“۔ہر علاقے کو دو دن پہلے بجلی کی لوڈشیڈنگ کانیا شیڈول ملا ہے۔ مگر وہ بس ملا ہے۔اس پر عمل نہیں ہوا۔ جو اوقات کار اس میں درج تھے وہ بس درج تھے۔دروازے پر گلی محلے کے بچے برف مانگنے آتے ہیں۔ان کو بھی کیا دیں۔اپنے لئے فریج میں برف نہیں جمتی تو کسی اور کی طرف ہاتھ کیسے لمبا کریں۔فریج کے برف خانے میں صرف ادھ جما پانی کٹوروں میں پڑا ہے۔جو اپنے ہی گھر کے کام آئے گا۔ مگر ٹھوس برف تو نہیں جمتی۔ الٹا لوگوں کے گھروں میں بجلی کی اس کش مکش سے الیکٹرانک چیزیں خراب ہو رہی ہیں۔سمجھ نہیں آتا کہ ہوگا توکیا ہوگا۔ کیاہم نے اسی طرح رہنا ہے۔ہماری بھی کبھی قسمت بدلے گی۔ہم بھی کبھی اچھے ہو پائیں گے۔کاش وہ دن آئے اور جلد آئے۔