گرینڈ ڈائیلاگ وقت کا تقاضا

یہ ملک آ ج جن مشکلات کا شکار ہے اسکے ذمہ دار بحیثیتِ مجموعی وہ تمام حکمران ہیں جو مختلف ادوار میں وطن عزیز کے ایوان اقتدار کا حصہ رہے ہیں۔ہم اس فضول بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ فلاں فلاں سیاسی پارٹی پاکستان کے موجودہ مسائل کی ذمہ دار ہے، کسی ایک شخص کو ملک کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار ٹھہرایا نہیں جا سکتا۔یہ ان کی اجتماعی ناکامی ہے ان میں سے کوئی بھی اس بات کا اندازہ نہ لگا سکا کہ آبادی کی مناسبت سے وسائل میں اضافہ اور ان سے استفادہ کرنا ضروری ہے۔ چین ہم سے دو برس بعد آزاد ہوا اس کی قیادت نے بھانپ لیا کہ ترقی کیلئے ضروری عوامل میں سے ایک آبادی اور وسائل میں تناسب ہے اور اس کو برقرار رکھے بغیر وہ چین کے عوام کا معیار زندگی بلند نہ کر سکیں گے چنانچہ اس نے جو چین کیلئے ترجیحات متعین کیں ان میں اس نکتے کو سرفہرست رکھا۔ ہم نے اس کے بر عکس اس طرف کوئی توجہ ہی نہ دی۔ہماری اکثر ترجیحات ہی غلط تھیں پانی سے جو بجلی بنتی ہے وہ عوام کو دیگر ذرائع سے بجلی بنانے سے سستی پڑتی ہے پرہم نے 1960 کے سندھ طاس منصوبے کے تحت جتنے ڈیم بنانے تھے اس کا دسواں حصہ بھی نہ بناپائے۔ کاش ہم نے مستقبل میں اس ملک کی توانائی کی ضروریات کا اندازہ لگا کر درست پلا ننگ کی ہوتی اور اپنے سیاسی مفادات کو بالاے طاق رکھ کر اس معاملے پر سیاست نہ کرتے تو آج اس ملک کو نہ ممکنہ پانی کے بحران کا سامنا ہوتا اور نہ ہی بدترین لوڈ شیڈنگ کا۔ اس سلسلے میں وزیراعظم صاحب نے یہ دانشمندانہ بات کی ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز سر جوڑ کر بیٹھیں اور ملک کو درپیش تمام مسائل کا حل نکالیں ان کے گرینڈ ڈائیلاگ کو بند کیمرے کے بجائے میڈیا کی موجودگی میں ہونا چاہئے تاکہ عام آدمی کو بھی براہ راست پتہ چلے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ یہ وقت ملک کی بقا اور سالمیت کے حوالے سے سنجیدہ رویہ اپنانے کا ہے‘ آج وقت کا تقاضا ہے کہ تمام سیاست دان اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر اس وقت ملک کو جس معاشی بحران کا سامنا ہے اس کا کوئی حل نکالیں اس قسم کے بحرانوں کی صورت میں ملک کے عظیم تر مفاد کی خاطر سیاسی طور پر حریف جماعتیں فی الوقت سب رنجشیں فراموش کر کے قومی حکومت بنا کر کچھ عرصے کیلئے سیز فائر کر د یں تو یہ یقینا ایک تاریخی قدم ہوگا اور جس طرح وزیر اعظم نے اس حقیقت کا ادراک کیا ہے اس سے یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ اگر خلوص نیت ہو تو مشکل سے مشکل مرحلہ آسان ہوجاتا ہے۔ اگر وزیر اعظم کی اس خواہش کا دیگر جماعتیں بھی احترام کریں اور واقعی حالات کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے گرینڈ ڈائیلاگ کا حصہ بنیں تو اس سے عوام کو بہت مثبت پیغام جائیگا۔موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا اور باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حالات کی نزاکت کا احساس کرنا ہوگا۔ کیونکہ سیاسی عدم استحکام نے معاشی حالات کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ان حالات میں وزیر اعظم کی طرف سے گرینڈ ڈائیلاگ کی پیشکش ایک اہم پیش رفت ہے جس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔اب کچھ دیگر اہم معاملات کی بات کرتے ہیں۔صحت انصاف کارڈ ختم کر کے سرکاری اہلکاروں کیلئے تو چلو کارڈ کنٹریبیوشن سکیم کو لایا جا رہا ہے پر جو لوگ سرکاری ملازمین نہیں ہیں ان کے مفت علاج کا کیا بندوبست ہو گا اس بارے میں حکومت جتنی جلدی وضاحت کرے اتنا ہی بہتر ہو گا۔وفاقی وزیر خزانہ کے اس بیان سے بھلا کس کو اختلاف ہو سکتا ہے کہ حکومت آ مدنی کے حساب سے ٹیکس لے گی پر سوال یہ ہے کہ ماضی میں بھی ارباب اختیار اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے آ ئے ہیں پر عملًا ایسا ہوا نہیں۔ تاہم اب امید پیدا ہوگئی ہے کہ اب کی دفعہ مندرجہ بالا بیان کو واقعی عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ ایک عرصے سے ہم متعلقہ سرکاری ادارے کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کرا رہے ہیں کہ سڑکوں پر روزانہ درجنوں کے حساب سے ٹریفک کے حادثات میں جو اموات ہو رہی ہیں ان کے سد باب کیلئے فوراً ضروری اقدامات اٹھائے جائیں۔پر مجال ہے کہ کسی کے کانوں پر جوں بھی رینگی ہو نہ اوور سپیڈنگ پر کنٹرول کیا جا سکا ہے اور نہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکا ہے کہ سڑکوں پر جو بھی گاڑیاں چلیں وہ مکینیکلی سو فیصد فٹ ہوں ورنہ ٹائر پھٹنے اور ٹائی راڈ ٹوٹنے سے ٹریفک کے حادثات میں جو اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، ایسا نہ ہوتا۔ اس ملک کی سڑکوں پر جو ڈرائیور ز گاڑیاں چلاتے ہیں ان میں اسی فیصد صرف ویل ڈرائیور wheel driverہیں۔ وہ ٹریفک کے قوانین بالکل واقف نہیں ہوتے ٹریفک قوانینِ کی خلاف ورزی کرنے والوں کیلئے سخت سزاؤں پر عمل درآمد کرکے ہی اس معاملے میں پیش رفت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔