ایران تاجکستان تعلقات 



میڈیارپورٹس کے مطابق ایرانی اور تاجک حکام نے گزشتہ پیر کو تاجک صدر امام علی رحمان کے دورہ تہران کے دوران مختلف شعبوں میں تعاون کی سترہ دستاویزات پر دستخط کیے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ معاہدے سیاست، معیشت، تجارت، نقل و حمل، سرمایہ کاری، نئی ٹیکنالوجی، ماحولیات، کھیل، توانائی، عدلیہ، تعلیم و تحقیق اور سیاحت کے شعبوں میں کئے گئے ہیں۔سیاسی مبصرین گزشتہ سال تاجکستان کے دارالحکومت دو شنبہ میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں ایرانی صدر کی شرکت کے محض چھ ماہ بعد تاجک صدر کے دورہ ایران کو خصوصی اہمیت کا حامل قراردے رہے ہیں۔ دونوں برادر پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے سلسلے میں ایک تازہ ترین پیشرفت ایرانی مسلح افواج کے چیف آف سٹاف میجر جنرل محمد باقری اور تاجکستان کے وزیر دفاع جنرل شیرعلی مرزو کا مشترکہ طور پرتاجکستان میں ایران کے ابابیل 2 ڈرونز کی تیاری کے ایک پلانٹ کا افتتاح کرناہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان مشترکہ دفاعی اور فوجی تعاون کو فروغ دینے کے سلسلے میں اس پلانٹ کے افتتاح کو ایک بڑی کامیابی سے تعبیرکیاجارہاہے۔دریں اثناء خطے اور بالخصوص افغانستان میں عمل دخل بڑھانے میں ایران اور تاجکستان مل کر کتنی دلچسپی لے رہے ہیں اس کااندازہ جہاں ایران تاجک تعلقات میں ہونے والے غیرمعمولی اضافے سے لگایاجاسکتاہے وہاں گزشتہ دنوں دوشنبے میں افغانستان کے حوالے سے ہونے والے چوتھے علاقائی سلامتی سے متعلق مذاکرات کاانعقاد بھی اس بات پر دال ہے کہ تاجکستان ایران سمیت خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان کی سلامتی کی صورتحال اور اس کے خطے کے ممالک پر ممکنہ اثرات کو زیر بحث لانے میں کس حد تک متحرک ہے۔واضح رہے کہ تاجکستان مشترکہ ثقافت،زبان اور مذہب کی وجہ سے ایران کی خارجہ پالیسی میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ ایران پہلی ریاست تھی جس نے ستمبر 1991 میں تاجکستان کی آزادی کو سب سے پہلے تسلیم کیاتھا اور ایک سال بعددوشنبے میں اپنا سفارت خانہ کھول کر اس اہم پڑوسی ملک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کی بنیاد رکھ کر اس کی جانب دوستی کاہاتھ بڑھایا تھا۔ ایران گزشتہ کئی سالوں کے دوران تاجکستان کی متعدد منصوبوں پر عمل درآمد میں مددکرتا آیا ہے جن میں استقلال سرنگ (انزوب ٹنل) جودارالحکومت دوشنبہ اور تاجکستان کے دوسرے بڑے شہر خوجند کو ملاتی ہے کی تعمیر میں ایران کی جانب سے 40 ملین ڈالر مالیت کی سرمایہ کاری کرنا ہے۔ اسی طرح ایران کی مدد سے سنگتودا-2 ہائیڈرو پاور اسٹیشن 260 ملین ڈالر کی لاگت سے 2011 میں تعمیر گیا تھا۔ 2008 میں ایران نے روگن ڈیم کی تعمیر میں بھی دلچسپی ظاہر کی تھی جسکو توانائی اور زرعی مقاصد کیلئے بروئے کار لایاجانا تھا۔ مزید برآں ایران اور تاجکستان کے دو طرفہ اقتصادی تعلقات کا عروج 2013 میں اس وقت آیاجب دونوں جانب کی سرمایہ کاری کا کل ٹرن اوور 292,3 ملین ڈالر تک پہنچ گیاتھا۔2018میں بعض وجوہات کی بناء پر  دونوں ممالک کی تجارت کا حجم 2013کی شرح 292,3 ملین ڈالر سے 98ملین ڈالر کی پست ترین سطح پر آگیا تھاجس کااثر پہلے خوجند شہرمیں ایران کے بڑے خیراتی ادارے "امداد"کے دفاتر کی بندش اور بعد ازاں ایرانیوں شہریوں کو تاجک ایئرپورٹوں پر ملنے والی ویزا کی سہولیات پر پابندی کی صورت میں سامنے آیا۔البتہ2019میں ایران کے اس وقت کے صدر حسن روحانی کے دورہ تاجکستان سے سرد مہری کی برف پگھلناشروع ہوئی جس میں مزیدگرمجوشی صدر منتخب ہونے کے بعد ایران کے موجو دہ صدر ابراہیم رئیسی کااپنے پہلے غیرملکی دورے کیلئے تاجکستان کاانتخاب تھا۔