بندہ سوشل میڈیا نہ دیکھے۔کیونکہ آج کل تو دل دہلا دینے والی خبریں ہیں۔حالانکہ سچ تو سچ ہے مگر یہاں حقیقت کے نام پر جھوٹ کے پلندے ہیں۔اپنے پاس سے ہر کس و ناکس نے یوٹیوب چینل بنا رکھے ہیں۔ اپنے مطلب کے پرچار کیلئے لگے رہتے ہیں۔پھردیکھنے والے اعتبار بھی کرلیتے ہیں۔مگر جب سچ آتے آتے آتا ہے تو جھوٹ نے ایک دنیا ویران کر دی ہوتی ہے۔کیا معلوم کون سچ کہتا ہے اور کس نے جھوٹ کی دیوار اٹھا دی ہوتی ہے۔آج کل ناواقفیت بھی ایک تحفہ ہے۔جس کو حقیقتِ حال کا علم ہو جاتا ہے وہ پریشان رہتا ہے۔جن کو لاعلمی ہوتی ہے وہ خوش رہتے ہیں۔کیونکہ نا واقفیت میں بھی ایک سرخوشی اور انعام ہوتا ہے۔اب کیا بندہ اپنے آپ کو اُداس رکھے۔ آج کل کیا ہو رہاہے۔پورے ملک میں کیا کیا ڈھول بج رہے ہیں اور ہمارے شہر میں کیا غارت گری ہے۔اس بارے جن کو علم نہیں وہ اچھے ہیں۔کیونکہ لا علمی بھی ایک شکر کامقام ہے۔اصلیت جان کر کیا کریں گے۔ اندر اندر کڑھنا اور جلنا ہے۔جن کو صورت ِ حال کے بارے میں جانکاری حاصل ہے وہ پارے کی طرح بے چین ہیں۔کیا ہوگا کیا نہیں ہوگاکب ہوگا یہ کیوں ہورہا ہے ہمارا کیا بنے گا شہر کا کیا ہوگا ملک میں پانسا کس طرف پلٹنے والا ہے۔یہ سب کچھ سوچ سوچ کر حساس آدمی خود کوگھن لگا لیتا ہے۔اندر اندر کرچی کرچی ہونے لگتا ہے۔جبکہ وہ لوگ جو ان تمام امورات سے واقف نہیں ہیں۔پھر یا تو ان کامزاج ہی ایسا ہے کہ معاشرے میں کچھ بھی الٹا سیدھا ہو جائے ان کو دلچسپی نہیں لینا۔وہ اچھے رہ جاتے ہیں۔ مگر وہ جو ہر بات پہ دل میں اک ٹیس سی محسوس کرتے ہیں وہ سینے میں دل میں اور دماغ و ذہن میں درد محسوس کرکے کلیجہ مل کر رہ جاتے ہیں۔گویا ”ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں“۔آج کل چونکہ بجٹ کے دن قریب تر ہوئے جاتے ہیں۔ اس لئے سرکاری ملازمین اور اس کے علاوہ پنشنرحضرات کو تشویش ہے کہ خدا جانے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں وغیرہ میں کتنا اضافہ ہوگا۔ان کومعلوم ہے کہ جتنا بھی اضافہ ہوا ہو جائے گا دیکھا جائے گا۔مگر بعض لوگ اس معاملے میں زیادہ حساس ہیں۔جوں ہی یو ٹیوب کھولو بجٹ کے حوالے سے کوئی نہ کوئی چینل سامنے آ جاتا ہے۔جس کی تصویر پر ایسی عبارت بطور عنوان لکھی ہوتی ہے کہ اگر کوئی نہ بھی دیکھنا چاہے تووہ یہ چینل کھول کردیکھتا ہے۔مگر کھودا پہاڑ نکلا چوہا والی بات ہے۔اندر کچھ نہیں ہوتا۔جو تحریر بعنوان دی ہوتی ہے کہ جس سے سنسنی پھیل جائے اور دیکھنے والے کلک کر ہماراچینل کھول لیں۔وہ تحریر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔وہ بات جو عنوان میں دی گئی ہوتی ہے وہ سرے سے ویڈیو کے اندر موجودہی نہیں ہوتی۔دھماکے دار خبریں اور ناظرین کا جوشِ تجسس اُبھارا جاتا ہے۔ان دنوں تو ہر سرکاری ملازم چاہے نہ چاہے کسی نہ کسی طرح تنخواہوں میں اضافے کی اصلیت تک پہنچنا چاہتا ہے۔کبھی ا س چینل والے کہتے ہیں حکومت کا بڑا اعلان۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پچاس فیصد اضافہ اور ساتھ میں الاؤنس بھی زیادہ۔پھر اگلے دن یو ٹیوب کھولو تو کہا جاتا ہے کہ سرکاری ملازمین کوبہت بڑا دھچکا۔حکومت نے اعلان واپس سے لیا۔ مگر جو شروع میں بار بار دیکھ لیتے ہیں بعد میں ان کا اعتباراُٹھ جاتا ہے۔ پھر وہ متحرک تصویری پیغامات کو دیکھنا سننا نہیں چاہتے۔ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس قسم کی موویاں اپ لوڈ کرنے وا لوں کو یوٹیوب والوں کی طرف سے دیئے گئے منٹس کے دورانیے کو پورا کرنا ہوتا ہے۔کیونکہ سنا ہے مقررہ دیئے گئے منٹس پورے کر لیں تو آپ کو مستقل آمدنی کاسلسلہ شروع ہوجائے گا۔کبھی سکرین پر لکھا آ جاتا ہے سرکاری ملازمین پر بم گرا دیا گیا یہ ویڈیوزدیکھ کر بہت غصہ آتاہے۔وہ اس لئے کہ وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ ہم ان کی یہ ویڈیو دیکھیں۔وہاں ہم نے دل میں تہیہ کیا ہوتا ہے کہ اب ان کی ویڈیو نہیں کھولنا۔مگر ان ستم ظریفوں نے ایسی سرخیاں جڑ دی ہوتی ہیں کہ بندہ نہ چاہتے بھی انگلی کی پور کو ہلکے اشارے سے سکرین پر دباتا ہے اور ویڈیو چالو ہو جاتی ہے۔اس کے علاوہ او ربہت جھوٹ بتلایا جاتاہے۔مگر اس کی پیش کاری ایسے سلیقے سے ہوتی ہے کہ بندہ دیکھے بغیر نہیں رہتا۔اس ویڈیو میں صرف ایک جملے کی خبر ہوتی ہے جس کو خواہ مخواہ چیونگم کی طرح پھیلااورپُھلا کر اس کے غبارے بنا کر پھوڑتے رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سوشل میڈیا سارا کا سارا جھوٹ کا سہارا لیتا ہے بلکہ یہاں پر باوثوق معلومات کا وہ خزانہ بھی دستیاب ہے جسے استفادہ کرنا مفید رہتا ہے۔