ہمارا دین ہمیں نارمل حالات میں بھی اسراف کی اجازت نہیں دیتا اور آ ج تو خیرہمارا ملک معاشی بد حالی کا شکار ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لئے ارباب اقتدار کو سادگی اور قناعت کی مثالیں قائم کرنا ہوں گی کیونکہ عربی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ رعایا حکمرانوں کا چلن اپناتی ہے۔ وزیر اعظم صاحب نے اگلے روز سرکاری سطح پر کفایت شعاری کا ایک پروگرام بنایا ہے جو ایک بروقت اقدام ہے پر اس کی کامیابی کا انحصار کافی حد تک اس پر صدق دل سے عمل درآمدپر ہوگا۔ ماہرین معاشیات کے مطابق جب تک ہماری درآمدات اور برآمدات میں توازن پیدا نہیں ہوتا ہماری معاشی پوزیشن ڈانواں ڈول رہے گی نہ جانے ہمارے ارباب بست و کشاد یہ فیصلہ کیوں نہیں کرتے کہ اس ملک میں تمام اشیائے تعیش کی درآمدات کو بند کر دیا جائے کہ جن کی امپورٹ پر ایک کثیر زر مبادلہ کی رقم خرچ ہوتی ہے۔
اس ملک کی اشرافیہ پر حصہ بقدر جثہ کے مطابق ٹیکس نہیں لگایا جارہا امیر اور غریب کے معیار زندگی میں بہت فرق ہے ایک کے پاس سائیکل خریدنے کے پیسے بھی نہیں اور دوسرے کے بنگلے کے پورج میں بی ایم ڈبلیو اور لینڈ کروزر کھڑی ہوئی ہیں ایک طرف اس ملک کا غریب بیماری کی صورت میں علاج کے حوالے سے مشکل کا شکار ہوتا ہے تو دوسری طرف اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے بھاگم بھاگ علاج کیلئے لندن یا امریکہ کا رخ کرتے ہیں کفایت شعاری کا مطلب یہ ہے کہ مفت خوری ختم ہو غیر ترقیاتی اخراجات کا خاتمہ کرنا ہوگا جیسا کہ غیرضروری غیر ملکوں کے دورے پر بھاری بھر کم وفود کے ساتھ جانا بڑی بڑی گاڑیوں کی خریداری اور اپنے دفاتر کی تزئین و آرائش پر موٹی رقوم خرچ کرنا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کفایت شعاری کا مظاہرہ ہمیں بحیثیت قوم کرنا ہوگا یعنی ہر فرد کو دستیا ب وسائل اور ان کے استعمال کے حوالے سے احتیاط کی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا۔ بجلی، پانی، گیس اور دیگر ذرائع جن پر ملکی ترقی کا انحصار ہے کی حفاظت اور کفایت شعاری کے ساتھ استعمال لازمی ہے۔دوسری صورت میں وہ وقت دور نہیں جب ہم ان قیمتی قدرتی وسائل سے محروم ہو کر مشکلات اور مسائل کا شکار ہوں گے۔ پانی کی قلت کا تو ہمیں اس وقت ملک گیر پیمانے پر سامنا ہے اور دریاؤں میں پانی کی سطح میں ریکارڈ کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ زیر زمین پانی کی سطح بھی گر گئی ہے تاہم حیرت ہے کہ ہم اب بھی گاڑی دھونے کیلئے صاف و شفاف زیر زمین پانی بے تحاشا استعمال کررہے ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ کم از کم پانی کے بے پناہ ضیاع کو تو ہم روکیں اور سروس سٹیشنوں پر پانی کو بار بار استعمال کرنے کی ٹیکنالوجی متعارف کرانا وقت کی ضرورت ہے‘ہمارے اکثر قارئین نے ہم سے پوچھا ہے کہ اگر روس ہم کو واقعی کم قیمت پر تیل اور گیس فروخت کرنا چاہتا ہے تو پھر حکومت کیوں اس سے یہ دو آئٹم نہیں خریدتی۔ ایک اور تشویش ناک خبر یہ ہے کہ وفاقی بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ آئی ایم ایف کی منظوری سے منسلک ہے‘ فکسڈ انکم والے ملازمین کی مالی حالت پہلے ہی سے نا گفتہ بہ ہے اور اگر ان کو اس ماہ نئے سالانہ بجٹ میں ریلیف نہ ملا تو خدشہ ہے کہ کہیں بطور احتجاج سڑکوں پرنکل نہ آئیں‘جس سے نیا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق مناسب اقدامات کئے جائیں۔