اردو میں جس کا م کو ہم چھا نٹی کہتے ہیں انگریزی میں یہ کا م سکریننگ (Screening) کہلا تا ہے کسی مقصد کیلئے ہزاروں درخواستیں جمع ہو جائیں تو دنیا بھر میں سکریننگ ٹیسٹ کر کے اُمیدواروں کی چھا نٹی کی جا تی ہے پا کستان میں جگہ جگہ غلط سکریننگ کی شکا یا ت پر عدالتوں نے بھی نوٹس لیا ہے بعض حا لات میں حکم امتنا عی بھی دیا جا چکا ہے بعض ٹیسٹوں کو منسوخ کر دیا گیا ہے یہ سب اس لئے ہوا کہ ہمارے ہاں سکریننگ کیلئے درست طریقہ اختیار نہیں کیا جا تا خیبر پختونخوا میں سکریننگ ٹیسٹ پہلی بار 1989ء میں متعارف کرایا گیا اور آغا خا ن یو نیورسٹی کراچی سے ما ہرین کی ٹیم بلا ئی گئی اس ٹیم نے نصاب تعلیم کو سامنے رکھ کر میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے لئے سکریننگ ٹیسٹ منعقد کر کے نتائج دیدئیے تین سالوں کے تجربے کے بعد سکریننگ ٹیسٹ کا کام صو بائی حکومت نے اپنے ذمے لے لیا 2015ء میں صو بائی حکومت نے تما م ملا زمتوں کیلئے سکریننگ ٹیسٹ متعارف کرایا اور مختلف نجی کمپنیوں کو اس کا ٹھیکہ دیدیا۔
بات آگے بڑھی تو صوبائی پبلک سروس کمیشن نے بھی سکریننگ ٹیسٹ متعارف کرایا اب یہاں تک نوبت آگئی ہے کہ سکریننگ ٹیسٹ کا مقصد ہی فوت ہو گیا ہے ایک پرانا گِھسا پِٹا لطیفہ مشہور ہے ایک اجنبی نے دیہا تی سے پو چھا یہ راستہ کدھر جاتا ہے؟ دیہا تی نے کہا یہ راستہ کہیں نہیں جا تا یہیں رہتا ہے لوگ آتے جا تے ہیں، 33سال پہلے صو بائی حکومت نے سکریننگ شروع کروائی تو اس کا مقصد یہ تھا کہ میڈیکل اور انجینئرنگ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کیلئے مو زوں ذہا نت اور منا سب تعلیمی قابلیت کے اُمیدواروں کی چھا نٹی کی جا ئے اس مقصد کیلئے پر چہ سوالات بنا نے والے ما ہرین کی باقاعدہ تربیت کی گئی تھی جن کے بنائے ہوئے پر چے کو دیکھ کر دل خوش ہوتاتھا اب پلوں کے نیچے سے اتنا پا نی بہہ چکا ہے کہ پُل کو یا د ہی نہیں پڑتا پا نی کا پہلا ریلہ کب آیا تھا اب سکریننگ ٹیسٹ کیلئے پر چہ سوالات بنا نے کیلئے نہ ماہرین کی ضرورت محسوس کی جا تی ہے نہ پر چہ بنا نے والوں کیلئے تر بیتی پر وگرام یا اورینٹیشن کی ضرورت محسوس کی جا تی ہے۔
اس وجہ سے غیر تر بیت یا فتہ لو گ ٹیسٹ پیپر یا گائیڈ سامنے رکھ کر پرچہ سوالات کی نقل اتارتے ہیں اور وہی پر چہ سکریننگ ٹیسٹ کیلئے اُمیدواروں کے سامنے رکھا جا تا ہے اس میں ذہانت کے امتحا ن کا کوئی ادنیٰ معیار بھی نہیں ہو تا اس میں یہ بھی نہیں دیکھا جا تا کہ ٹیسٹ کس پوسٹ کیلئے یا کس ادارے میں داخلے کیلئے ہو رہا ہے مثلاًآپ جی آر ای (GRE) کا پر چہ سوالات اٹھا کر دیکھ لیں یا گیٹ (GAT) کا پرچہ سوالات سامنے رکھیں اس میں ذہا نت اور قابلیت کا امتحا ن ہو تا ہے۔جا نچ پڑتال کا حسین امتزاج ملے گا آپ کا دل گوا ہی دے گا کہ اس پر چے کی مدد سے جو چھا نٹی ہو گی اس میں بہترین صلا حیت اور قابلیت کے اُمیدوار منتخب کئے جا ئینگے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے سسٹم کا ازسر نو جا ئزہ لیا جا ئے کسی بھی سکریننگ ٹیسٹ کا مقصد واضح کر کے ما ہرین کے ذریعے پر چہ سوالات مرتب کیا جا ئے تاکہ اُمیدوار وں کے معیار تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی ذہا نت کو بھی چانچنے کا موقع میسر آجا ئے ایسا نہ ہو کہ ٹیسٹ میں اے گریڈ لینے والا چار امتحا نا ت میں سیکنڈ ڈویژن کی حد عبور کرنے میں نا کام ہو چکا ہو، اور شروع سے آخر تک اے گریڈ لینے والا امیدوار آپ کی چھا نٹی میں ہاتھ ہی نہ آئے پہلے مقصد کو سامنے رکھا جائے پھر ما ہرین کے ذریعے اس مقصد کیلئے پر چہ سوالات مرتب کرائے جائیں اگر یہ ممکن نہ ہو تو پورے سسٹم کو لپیٹ کر بورڈ اور یونیورسٹی امتحانات کے نمبروں پر انحصار کیا جائے اس طرح مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔