موٹر گاڑیوں کی روشنیاں 

وہ تو اچھا ہوامجھے رات کے اندھیرے میں سامنے سے سڑک کراس کرتی ہوئی کیلوں کی ہتھ ریڑھی عین پانچ گز کے فاصلے پر سے نظر آگئی۔ ورنہ تو میں نے بمعہ اہل و عیال ریڑھی کو ٹھوک دینا تھا۔ اس دو پہیوں کی ہتھ گاڑی کو تو کچھ نہ ہوتا۔کیونکہ وہ لکڑی کی بنی ہوئی تھی۔ ہاں ہماری چاند گاڑی کااگلاٹائر گول ہونے کے بجائے چوکور ہو جاتا۔ہم نے فوراً اگلے پچھلے بریک کھینچ لئے۔ٹکراتے ٹکراتے بچے تھے۔رات کی یہ چکاچوند روشنیاں گاڑیوں میں فلڈ لائٹس اور فلش لائٹس کی صورت ہنگامہ کرتی فضا میں شامل ہورہی تھیں۔ میں اس وقت رُک گیا تھا۔ میرے ساتھ کی سواریاں چیخیں کہ آج گئے۔مگر ہاتھ کا دیا کام آیا اور خوش قسمتی کہ بہت قریب سے اس تصادم ہونے سے بچ گیا۔میں حیرت زدہ کھڑے دیکھتا رہ گیا۔بلّوں کی سی گول آنکھیں گھماتے منہ سے ناچار چُپ ہو کر کہ جیسے مداری نے خالی ٹوکری میں سے پھڑپھڑاتا ہوا کبوتر نکال لیا ہو۔مگر مجال ہے کہ ہتھ ریڑھی والے صاحب کے ماتھے پر پریشانی کے کوئی آثار ہوں یا اس نے اس واقعہ کا نوٹس ہی لیا ہو چاہے وہ از خودہو یا خود بخود ہو۔وہ تواپنا سر کو دائیں جانب ٹیڑھا کئے اوپر اوپر دیکھتے بغیر رکے ہوئے سڑک کے اُس پار جانے لگا۔
اُس وقت جی میں آیا بلکہ منہ میں بھی بہت کچھ آیا مگر جانے کیوں ہمیں چُپ لگ گئی۔ شاید اس پر شکر کرتے ہوئے کہ بڑی مصیبت سے بچ گئے۔ وگرنہ تو ایسے موقع پر ہم اپنی چاند گاڑی سمیت زمین پر بچھ جایا کرتے ہیں۔پھر اٹھتے نہیں اٹھائے جاتے ہیں جاتے نہیں بلکہ سڑک کنارے لے جائے جاتے ہیں۔ہم خاموش اورگُنگ جیسے منہ کی زبان گھر پر چھوڑ دی ہو مگر خاتون خانہ ایسے کہ جیسے اپنی تو ہے مگر تیز طرار خواتین کی شعلے اگلتی ہوئیں زبانیں بھی ساتھ لے آئی ہوں۔دراصل ہمارے ہاں رات کے وقت گاڑیوں کی لائٹس اتنی تُند و تیز ہوتی ہیں کہ سامنے سے آرہی ہوں تو ہم جیسے لوہے کے گھوڑے کے سوار اندھے ہونے لگتے ہیں۔
رات کو اصول یہ ہے کہ سڑک پر جاتے سمے پیچھے کی گاڑی کی روشنی اور سامنے سے آنے والی گاڑی کی روشنی جب آپس میں ٹکراتی ہیں۔تو پھردرمیان میں راہگیر ہو یا کچھ او ر ہو نظر نہیں آتا۔اس موقع پرہم جیسوں کو بڑی مشکل سے نظر آنے لگتا ہے۔پچھلے زمانے میں تانگے والے اپنے دائیں بائیں دو روشن لالٹینیں رکھتے کہ وہ سامنے سے آنے والے یا کھڑے ہوئے لوگوں کو نظر آئیں۔اسی طرح اس نابکار انسان کو بھی چاہئے تھا بلکہ ہر ہتھ ریڑھی والاجو سڑک پر رات کے وقت جاتا ہو۔اس کے علاوہ کسی قسم کی گاڑی ہو جس میں روشنی کا بندوبست نہ ہو درکار ہے کہ وہ اپنی ہتھ گاڑی پرکوئی سیل والی ٹارچ روشن کر لے۔کیونکہ بالفرض اس کی آنکھوں کی اپنی روشنی زائل ہو چکی ہے اور اس کو کچھ دکھائی نہ دے تو سامنے آنے والی دو پہیہ گاڑی کو یہ خود تونظر آ سکے۔مگر یہ بے فکرے لوگ ایسا نہیں کرتے۔
رات کو سڑک پر اتنی روشنیا ں ہوتی ہیں کہ لگتا ہے پشاور اب کراچی کی طرح روشنیوں کا شہر بن چکا ہے جو آج کل لوڈ شیڈنگ کے کارن اندھیرے میں ڈوبا ہواہے‘ سڑک پر آنے والی کوئی چیز ہو وہ کسی نہ کسی قانون کے ماتحت ہوتی ہے‘ مگر یہاں تو سڑک پر کوئی ماتحت نہیں۔جو سڑک پر آتا ہے وہ سرکاری املاک کو اپنی جائیداد سمجھ لیتا ہے۔وہ اپنے پُرکھوں کی چھوڑی ہوئی اس جائیداد کا اکیلا وارث بن کرسڑکوں کو خوب روندتا چلاجاتاہے‘کتنے ہی موٹر سائیکل والوں کی ہیڈ لائٹ رات کے وقت غریب کے گھر کے چراغ کی طرح شام ہی سے بجھی ہوتی ہیں‘ایک موٹربائیک والے نے تو ہمیں ٹکر مار دی تھی۔
 ہم سڑک کے اُس پار جانے سے پہلے رُک گئے تھے کہ روشنیوں والا ٹریفک کا بہاؤ گذر جائے تو آگے بڑھیں‘ہم خوب دیکھ بھال کرسڑک کراس کرنے کو آگے ہوئے تو دھڑام سے ایک بغیر بتی کے بائیک نے ہمارے بائیک کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔وہ تواچھا تھا کہ اس بار ہمارے ساتھ خاتونِ خانہ سوار نہ تھیں۔وگرنہ دوبارہ اس طرح کے سفاک تصادم میں وہ لڑائی پڑتی کہ خود ہمارے کنٹرول سے معاملہ باہر ہو تا۔رات کو گاڑی چلانے والوں کو اپنی لائٹس چیک کرناچاہئیں۔اگر زیادہ ہیں تو کم کردیں۔پھر اگر کسی بائیک رائڈر کی لائٹ نہیں ہے تو اسے گھر ہی سے نہیں نکلنا چاہئے۔