امریکہ اور یورپی ممالک اپنے ہاں تو قانون کی پاسداری پر سمجھوتہ نہیں کرتے تاہم دیگر ترقی پذیر ممالک سے غیر قانونی دولت کما کر وہاں پر رکھنے کے حوالے سے دوسری پالیسی پر عمل پیرا ہیں اس جملہ معترضہ کے بعد آئیے اب ذرا وطن عزیزسے متعلق جڑی ہوئی کچھ کھٹی میٹھی باتوں کا ذکر ہو جائے تو کوہی مضائقہ نہیں حکومت کا یہ فیصلہ نہایت ہی صائب فیصلہ ہے کہ جائیداد اور گاڑیوں پر تین سو ارب کا نیا لگژری ٹیکس لگایا جائیگا اس ملک کے سرکاری ملازمین خصوصا وہ ملازمین جو نچلے گریڈوں میں کام کرتے ہیں ان کیلئے یہ بات تشویش ناک ہے کہ آئندہ بجٹ میں ان کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا جا رہا اور اس ضمن میں پے اور پنشن کمیشن کی سفارشات کو ابتک حتمی شکل نہیں دی جا سکی ہے ان سرکاری ملازمین کو شاید اس کے بدلے میں کچھ ایڈہاک ریلیف دی جائے۔
اس وقت ملک کو میثاق معیشت کی سخت ضرورت ہے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات ختم کر کے اکٹھے بیٹھ کر معیشت کی بحالی کے بارے میں اہداف مقرر کرنے ہوں گے جنہیں تبدیل نہ کیا جاسکے اس وقت موجودہ معاشی صورتحال بڑی خطرناک ہے کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان بھارت سے ٹیکسٹائل میں آ گے تھا ماضی میں پاکستان کے روپے کی قدر بھارت اور بنگلہ دیش کی کرنسی سے بہتر تھی۔یہ خبر بھی تشویشناک ہے کہ عالمی معیشت کو 170 کی طرز کے بحران کا سامنا ہے۔
تجارت اور کاروباری معاملات پر دبا ؤہے شرح نمو 2.9 فیصد تک کم رہنے کا امکان ہے تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے عرب ممالک میں بھی تیل مہنگا ہے عرب امارات میں اس کی قیمت 56 فیصد بڑھ چکی ہے برطانیہ میں بھی پٹرول دو پونڈ فی لیٹرہو جائے گا جنوبی ایشیا کے ممالک کیلئے آ نے والے مہینے تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔کس کس بات کا رونا رویا جائے‘حساس دل و دماغ رکھنے والوں کی تو اس ملک میں زندگی اجیرن ہو گئی ہے یہ خبر دل دہلا دینے والی ہے کہ اس ملک میں زیرزمین پانی کی سطح گرتی چلی جا رہی ہے اور اگر ابھی سے اس بابت حکومت نے ضروری اقدامات نہ اٹھائے اور عوام نے پانی کے ضیاع کو نہ روکا تو 5 سال بعد زیر زمین پانی ختم ہو جانے کاقوی امکان ہے۔
یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ اس ملک میں کئی فیکٹریاں گندا پانی بورنگ کے ذریعے زمین کے اندر ڈال رہی ہیں آج عوام کو پینے کیلئے جو زیرزمین پانی دستیاب ہو رہا ہے وہ پینے کے قابل نہیں ہے وہ دن کب کے بیت چکے جب عوام میونسپل کمیٹی یا میونسپل کارپوریشن کے نلکوں کا پانی پیا کرتے تھے کیونکہ وہ آلودہ نہ تھا‘آج تو ہر سال لاکھوں افراد پسماندہ ممالک کے لوگ پیٹ کی بیماریوں سے لقمہ اجل ہو رہے ہیں‘ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک اپنی ترجیحات بھی درست نہ کر سکے۔کیا بڑے بڑے میگا پراجیکٹس سے پہلے ہمیں اپنے سکولوں‘ ہسپتالوں‘ عدالتوں‘تھانوں اورمحکموں کی حالت زار درست کرنے کی ضرورت نہیں کہ جن سے روزانہ عام آدمی کا واسطہ پڑتا ہے۔
اس حوالے سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہمیں اب اپنی ترجیحات کا زمینی حقائق کی روشنی میں از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔ اس حوالے سے اگر چہ حکومتوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تاہم عوام بھی معاشرتی مسائل کے حل میں مدد کے حوالے سے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہمارے رویے اور مزاج کا بھی اس میں عمل دخل ہے۔ بازار میں اگر رش ہے اور کوئی کسی کو راستہ دینے کیلئے تیار نہیں تو یہ ضرور ہے کہ راستوں کی کشادگی ضروری ہے تاہم صبر اور ایک دوسرے کی تکلیف کا احساس کرنے سے بھی بڑا فرق پڑتا ہے۔