چین‘ توانائی کے حوالے سے بہترین مثال

چین نے اپنی توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے نیا منصوبہ تیار کیا ہے۔ اس کے تحت وہ 2025 تک اپنی ونڈ اور سولر انرجی کی صلاحیت دوگنی کرلے گا جبکہ تھرمل پاور پلانٹوں سے بھی زیادہ بجلی پیدا کرے گا۔چین نے توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا جو نیا منصوبہ تیار کیا ہے اگر وہ نافذ العمل ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ پیرس ماحولیاتی معاہدے کے اہداف کو قبل از وقت حاصل کرلے گا۔ چین کو یہ ہدف 2030 تک حاصل کرنا ہے تاہم وہ ونڈ اور سولر انرجی کی صلاحیت کو دوگنی کرکے اسے 2025 تک حاصل کرنا چاہتا ہے۔حالانکہ یوکرین جنگ کے سبب توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہو جانے اور اپنی معیشت کو تقویت پہنچانے کے لیے بیجنگ نے حالیہ مہینوں میں تھرمل پاور پلانٹوں یا کوئلے سے چلنے والے بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں پر بھی انحصار بڑھا دیا ہے۔
چین میں منصوبہ بندی کے مرکزی ادارے کے طرف سے جاری کردہ ایک دستاویز کے مطابق 2025 تک ملک کے قومی گرڈ کو 33 فیصد بجلی کی سپلائی قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے ہونے لگے گی، جو 2020میں 29 فیصد تھی۔نئے منصوبے میں کہا گیا ہے کہ 2025 میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے بجلی کی سالانہ پیداوار تقریبا 3.3 ٹریلین کلوواٹ آور ہوجائے گی اور ونڈ اور سولر انرجی کی مقدار دو گنی ہوجائے گی۔چین اس وقت بھی دنیا میں سب سے زیادہ قابل تجدید توانائی پیدا کرنے والا ملک ہے۔ اس نے آلودگی پر قابو پانے کیلئے سولر اور ونڈ انرجی کے پروجیکٹوں میں سرمایہ کاری تیز کردی ہے۔
 ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پیدا کرنے والا ملک ہے اور ہر سال لاکھوں لوگ آلودگی کے سبب موت کا شکار ہو رہے ہیں۔بیجنگ نے ملک کو 2030 تک کاربن کے اخراج کو کم ترین سطح پر لے جانے اور 2060 تک کاربن نیوٹرل بنانے کا عہد کیا ہے۔نیشنل انرجی ایڈمنسٹریشن کے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ برس جنوری سے اپریل کے درمیان سرمایہ کاری کے مقابلے میں اس برس کے ابتدائی چار مہینوں کے دوران شمسی توانائی کے پروجیکٹوں میں سرمایہ کاری تقریبا تین گنا ہوکر 4.3 بلین ڈالر ہوگئی ہے۔لیکن چین کی توانائی کی پالیسی میں اب بھی کئی خامیاں ہیں۔
 یہ ملک اپنی معیشت کو بجلی فراہم کرنے کیلئے کوئلے کا جتنا استعمال کرتا ہے وہ دنیا بھر میں استعمال کیے جانے والے کوئلے کا تقریباً نصف ہے۔یوکرین کی جنگ کے سبب تیل اور قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے مدنظر چین کے پالیسی ساز کوئلے کے استعمال پر مزید انحصار کرنے پر زور دے رہے ہیں۔وزیر اعظم لی کی چیانگ نے گزشتہ ہفتے بتایا تھا کہ اقتصادی پریشانیوں پر قابو پانے کیلئے ملک کے مرکزی بینک نے کوئلے کی کان کنی اور کوئلے سے چلنے والے بجلی کے کارخانوں کیلئے 15 ارب ڈالر کے قرضوں کو منظوری دی ہے۔
مارچ میں کابینہ نے ہر سال اضافی 300 ملین ٹن کوئلہ نکالنے کا حکم دیا تھا۔ مقامی حکومتوں نے بھی گزشتہ برس ہی نئے تھرمل پاور پلانٹوں کی تعمیر شروع کردی تھی۔توانائی اور صاف ہوا پر تحقیقات کے مرکز میں تجزیہ کار لاوری مائیلی ورتا کا کہنا ہے کہ انرجی سکیورٹی چین کی سب سے اہم اور ضروری ترجیح ہے۔ منصوبہ ساز زیادہ تیز رفتار ترقی کی تیاری کررہے ہیں جس کیلئے توانائی کے روایتی ذرائع کا زیادہ استعمال ہوگا اور اس سے نقصان دہ گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہوگا۔
اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ چین باقی دنیا کیلئے ایک مثال قائم کرنے جا رہا ہے کہ کس طرح توانائی کے جدید ذرائع کو بروئے کار لا کر نہ صرف توانائی کی ضرورت کو پورا کیا جا سکتا ہے بلکہ اس طرح ماحول دوست طرز زندگی کو بھی پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔شمسی توانائی کے حوالے سے چین کے تجربات سے پاکستان کو استفادہ ضرور کرنا چاہئے۔جہاں دنیا کے بہت سے ممالک کے مقابلے میں شمسی توانائی سے استفادہ کرنے کے امکانات کہیں زیادہ روشن ہیں۔ تاہم اس حوالے سے ایک متحرک پالیسی اور بھر پور کوششوں سے ہی کامیابی مل سکتی ہے۔توانائی بحران کا حل ڈھونڈنا اب اولین ترجیح کے طور پر سامنے رکھنا چاہئے۔