ملک کے مختلف حصوں میں جنگلات میں آتشزدگی کے پے در پے واقعات رونما ہورہے ہیں۔اطلاعات کے مطابق صرف اس سال مئی کے مہینے میں صرف خیبر پختونخوا کے 20 اضلاع کے پہاڑوں میں آگ لگنے کے 313 واقعات پیش آچکے ہیں۔ان واقعات کے باعث اب تک نہ صرف کروڑوں روپے مالیت کے درخت راکھ کاڈھیر بن چکے ہیں بلکہ آتشزدگی کے ان بے در پے واقعات سے جہاں جنگلی حیات کو بڑے پیمانے پرنقصان پہنچا ہے وہاں اس سے ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔جنگلات کے رقبے میں اضافے کیلئے صوبائی حکومت کی کوششیں نظر انداز نہیں کی جاسکتیں اور اس حوالے سے جو کام ہوا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی تاہم آگ لگنے کے واقعات سے ان تمام کوششوں پر پانی پھرنے کا خدشہ ہے۔ تازہ واقعہ میں ضلع شانگلہ کی تحصیل چکیسر کے گاؤں علی جان کاپڑئی میں پہاڑوں پر لگنے والی آگ نے بے قابو ہوکرقریبی آبادی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جس میں 4 افرادکے زندہ جل کر جاں بحق ہونے اور پانچ کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ ادھر سوات میں گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ پہاڑوں اور جنگلات میں آگ لگنے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر درخت اور پودے جل کر راکھ کے ڈھیرمیں تبدیل ہوچکے ہیں۔
ریسکیوذرائع کے مطابق بریکوٹ، پھٹانے مینگورہ،سیگرام اور چار باغ کے پہاڑوں میں آگ لگ گئی جوہوا میں تیزی کے ساتھ گرد ونواح کے علاقوں تک پھیلتی چلی گئی جس نے درختوں اور پودوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بڑی تعداد میں پودے اور درخت جل گئے۔ خیبر پختونخوا کے ضلع لوئردیر سے بھی جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔یہاں پر آگ پر قابوپانے کیلئے فائربریگیڈ کے عملے کے علاوہ مقامی رضاکار بھی متاثرہ مقام پر آگ بجھانے میں مصروف ہوئے۔اسی طرح ہری پوری میں غازی کے جنگلات میں بھی خطرناک آگ بھڑک اٹھنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ جنگلات میں لگنے والی آگ کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس آگ پر قابو پانے کیلئے محکمہ جنگلات کے پاس نہ تو تربیت یافتہ عملہ ہے اور نہ ہی اس حوالے سے ضروری درکار وسائل اور تکنیکی آلات دستیاب ہیں اور نہ ہی ابھی تک اس طرح کے اقدامات کیے گئے ہیں کہ محکمہ جنگلات ہر جگہ پہنچ کر آگ بجھانے میں مقامی لوگوں کی مدد اور خاطر خو اہ راہنمائی کر سکے۔
محکمہ جنگلات کے حکام کے مطابق آگ لگنے کی صورت میں فارسٹ گارڈز ڈنڈوں یاپھر گھنی شاخوں کی مدد سے آگ بجھاتے ہیں جن سے چھوٹے موٹے واقعات پرتو قابو پالیا جاتاہے لیکن اگر خدا ناخواستہ یہ آگ خطرناک شکل اختیار کرلے تو پھر ایسی آگ پرقابو پانا تقریباً ناممکن بن جاتا ہے۔واضح رہے کہ اب تک ہونے والے زیادہ تر واقعات میں آگ بجھانے کیلئے ریسکیو 1122 کا عملہ ہی تعاون فراہم کر رہا ہے جن کے مطابق جنگل میں آگ بجھانا ان کے دائرہ کار میں شامل نہیں ہے لیکن وہ یہ کام اخلاقی فرض سمجھ کر سرانجام دے رہے ہیں۔ریسکیو 1122 کے اہلکاروں کاکہنا ہے کہ ان کے پاس ہیلی کاپٹر نہ ہونے کی وجہ سے اکثر جنگلات میں فائر فائٹرز کو پانچ گھنٹے تک پیدل جانا پڑتا ہے جبکہ پہاڑیوں پر جانے کے لیے ان کے پاس سیفٹی اور آگ بجھانے کی دیگر ضروری سہولیات بھی موجود نہیں ہیں۔
قطع نظر اس سوال کے کہ جنگلات میں آگ کیسے لگی، اس امر میں کوئی شک نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جو موسمی حدت میں اضافہ ہواہے وہ ایک اہم محرک ہے۔ کچھ ہماری غفلت کا بھی شاخسانہ ہوسکتا ہے تاہم موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو اب تسلیم کرنا پڑیگا اور اس کا توڑ کرنے کیلئے بھی پالیسی بنانا ہوگی۔ اس طرح عوام میں بھی اس حوالے سے اب شعور اجاگر کرنے کی شدید ضرورت ہے کہ جنگلات کا تحفظ ایک قومی ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں ہر فرد اگر اپنا حصہ ڈالے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس قیمتی خزانے کو جس پر ہماری ترقی اور خوشحالی کا انحصار ہے ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔