آپ کو حیرانی تو ہوگی۔ مگر میں واقعی آم نہیں کھاتا۔معلوم نہیں غالب کیسے زیادہ اور میٹھے آم کھا لیتے تھے۔ہم نے ایک مرتبہ ہاتھ کھینچے بغیر کھا لئے تھے او رخوب کھائے تو غلطی کی کیونکہ اس سے منہ پک گیاتھا۔ مگر ہمارے پشاو رکے شاعر کے ایک شعر میں یہ خواہش ہے کہ آم تو پسند ہیں میٹھے ہوں او ربہت ہوں مگر ٹھنڈے بھی ہوں۔اختر سیماب تو جدید زمانے کی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے شاعر ہیں۔مگر غالب کے زمانے میں بجلی موجودہی نہ تھی۔ایسے میں فریج کہاں سے آتا او رپھر برف کیسے جمتی او رپھر آم ٹھنڈے کیسے ہوتے۔ اچھے لوگ تھے اچھا زمانہ تھا۔کیونکہ ہم جیسوں کے لئے آم کی گرم تاثیر گرمی کے موسم میں مسئلہ ہے اور اس کی مٹھاس تو بالکل منع ہے۔اگر کہیں کھانے پڑجائیں تو کھالیتے ہیں۔ مگر جیسا ہمارے پیاروں کو اس کے کھانے کا جنون ہے اس طرح ہم نے یہ شوق نہیں پالا۔کبھی گرمی میں گھر والوں کے بزور کھانے ہوں تو ساتھ لسی پیتے ہیں کہ ہوسکتا ہے آم کی تپش لسی سے زائل ہو جائے۔کیونکہ لسی کی تاثیر ٹھنڈی ہے۔
موسم ِ گرما میں لسی پرہماری گذران زیادہ ہے۔اسی لئے کبھی تو گلا خراب کبھی سینے پہ ریشہ اور کبھی گھٹنوں گوڈوں میں چٹاخ پٹاخ کی آوازیں۔مگر ہم کہاں باز آتے ہیں۔ لسی سے دستبردار ہونے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔غالب کو گرمی میں آم اور ہمیں گرما میں دہی کی لسی مرغوب۔پھرہم اور مرزا غالب میں یہ فرق کیوں نہ ہو کہ غالب شاعروں کے بادشاہ اور آم پھلوں کا بادشاہ۔دونوں یکتائے زمانہ۔پھر ہم اور لسی دونوں فقیرانہ۔بلکہ بعض دودھ والوں کی طرح اگر لسی میں پانی ڈالو تو ہم ناراض نہیں ہوتے۔ کیونکہ ہمارا قول ہے کہ لسی ٹھنڈی ہو اور بہت ہو۔ا س لئے لسی ہمارے مرتبہ و مقام کے ساتھ عین برابر ہے۔ ہمیں اگرکسی محفل میں آموں کو بطورِ مہمان کھانا پڑ جائے تو وہاں ہاتھ صاف کرلیتے ہیں۔ پھر ہاتھوں اورکپڑوں کو آم کے داغوں سے رنگا رنگ لیتے ہیں۔ پھر گھر والیوں سے کوسنے سننا پڑتے ہیں۔ کیونکہ کپڑے ہم لانڈری سے تو دھلاتے نہیں۔
اس لئے آم ہماری پسند میں داخل ہی نہیں۔آم کھانے میں بہت بکھیڑے ہیں کھانے کے دوران میں جدا اور کھا نے کے بعد الگ۔اب خربوزہ کی کاش نہیں کہ منہ کے اندر بتیسی کے سائز میں داخل کر کے ایک ہی بار کاٹنے سے ہم یوں اس کا گودا امنہ ہی منہ میں الگ کر لیتے ہیں کہ جیسا خربوزہ کی ڈلی خربوزہ کی مشین میں ڈالی ہو۔ بلکہ بنگلہ دیش جہاں سمندر زیادہ ہے۔ وہاں مچھلی ہر موسم میں کھائی جاتی ہے۔پھر وہاں کے باشندے اتنی صفائی اور مہارت سے مچھلی کھاتے ہیں کہ مچھلی کاڈکرا منہ میں ڈال کر کانٹے اندر ہی اندر چباتے وقت اندر دانتوں کے پاس ایک طرف رکھنے لگتے ہیں۔گویا جبڑے نہ ہوئے مچھلی کھانے او رکانٹے الگ کرکے رکھنے کی جدید طرز کی مشین ہو۔اب آموں کو کون کاٹے اور کون چھیلے اور پھر چھیل کر چھلکوں کو ساتھ ساتھ ایک طرف کرتے جاویں۔آم کو کرش کرتے وقت منہ کو کبھی رونے کے سے انداز میں ٹیڑھا کرنا پڑتا ہے اور کبھی مسکرانے اور کبھی ہنسنے اور کبھی قہقہ لگانے کے سے سٹائل میں ہونٹوں کو اوپر نیچے کرنا پڑتا ہے۔پھر یہ خیال بھی کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔
صاحب جتنا بھی خیال کرلیں آم کھاتے وقت یوں لگتا ہے کہ میں بہت بد تہذیبی کے ساتھ کھا رہاہوں۔ پھر آم کھانے کا تو اصول ہی بد تمیزی ہے۔جب تک آڑھے ترچھے انداز میں آم نہیں کھائیں گے تو نہ مزا آتا ہے اور نہ ہی آم کھاؤ تو اس کے کھانے کا حق ادا ہوتا ہے۔آم کھانا ہو او رتہذیب سے ہو تو پھر مشکل پڑ جاتی ہے۔ اس لئے کہ آم کاٹ کرکرسٹل کے بلاک کے ساتھ آپ کو پلیٹ میں کانٹا بھی ساتھ دیا جائے تو اتنی بھی تہذیب درست نہیں کہ نہ تو ہاتھ آم کے شیرے سے رنگ دار ہوں اور نہ تو نئے جامے پر کوئی داغ ہو۔ اس طرح بعض لوگوں کو آموں کو کھانے میں لطف نہیں آتا۔ جب تک کہ آم کھانے میں بے صبری اور جلدی کامظاہرہ نہ کیا جائے۔آم کھانے کے لئے بہت ہنر چاہئے۔ کوئی تو آم کو نرم کر کے اسے جوس کا ڈبہ بنا کر ہونٹوں سے لگا لیتے ہیں۔
پھرکسی نے آم کو بیچ میں اس کی گٹھلی تک چھری چلا کے کاٹنا ہے۔پھر اوپر والے حصے کو مروڑ کر پیالے کی شکل میں الگ کرکے آم کو چمچ کے ساتھ ڈبوکے دے دے کر کھانا ہے۔مگر اس کی گٹھلی کے ساتھ جو گودا لگا ہوتا ہے اس کا اپنامزہ ہے۔آپ جتنا بھی صفائی پسند ہوں جتنا احتیاط کریں مگر گٹھلی تک تو پہنچناہوتا ہے۔جس کو کسی چمچ کے بغیر اور کسی دستانے کے علاوہ کھاناہوتا ہے۔مگر اس دوران میں گٹھلی نے ہر طرح سے آپ اگر ادھ جھکے ہوں آپ کے ہاتھوں سے پھسل کر بھی آپ کے کپڑوں پر گرنا ہوتا ہے۔ ہاں اگر کوئی چھیل کر دینے والا ہو اور اس کی کاشوں کو ڈلیوں کی شکل میں ڈھال کر ساتھ کانٹے کے کسی خوبصورت سی پلیٹ میں ڈال کر ہمیں پروسے تو پھر کہیں ہم آم چبانے کو راضی ہو پائیں۔ وگرنہ تو ہم اس سے دور اچھے ہیں۔کیونکہ کھانے کی بچھی ہوئی شیٹ پر ہماری نظر پکوانوں پر کم اور برتنوں گلاسوں جیسی اچھی کراکری پر زیادہ ہوتی ہے۔