بھارتی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی ترجمان نوپور شرما کے توہین آمیز بیان کے سخت رد عمل پر بھارت ششدر رہ گیا۔یاد رہے لاکھوں بھارتی عرب اور خلیجی ممالک میں ملازم ہیں جو ہر سال تقریبا 50ارب ڈالر کا زرمبادلہ بھیجتے ہیں۔ اس کے علاوہ وزیراعظم مودی کے دور میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے بھارت میں تقریبا ڈیڑھ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کیے ہوئے ہیں۔بی جے پی اور اس کی حامی تنظیمیں کھلم کھلا بھارت کو ہندو ریاست بنانے اور مسلمانوں کو ہندو دھرم اختیار کرنے یا بھارت چھوڑنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ یہ بیان اس بات کا ایک تازہ ثبوت ہے کہ بی جے پی کو بھارت میں جمہوری روایات، اقلیتوں کے حقوق اور ان کے مذہبی احساسات کی کوئی پروا نہیں اور جب تک اسے اپنی اس پالیسی پر چلنے کے سنگین نتائج سے بچنے کی امید ہو وہ اس پر عمل پیرا رہے گا۔ اور اس نے ثابت کردیا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔
بھارتی حکومت کو عرب دنیا میں اپنے مالی مفادات کو زک پہنچنے کا خدشہ ہوا تو مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے کی دعوے دار بی جے پی بھی تمام مذاہب کی عزت و وقار اور اقلیتوں کے احساسات کا خیال رکھنے کا ڈھنڈورا پیٹنے لگی۔ بی جے پی کے مرکزی جنرل سیکرٹری کا یہ لطیفہ نما بیان سامنے آگیا کہ ان کی جماعت تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے اور کسی بھی ایسے نظریے کی سخت خلاف ہے جو کسی بھی فرقے یا مذہب کی توہین کرتا ہو۔تاخیر سے کی جانے والی نیم دلانہ کاروائی کافی نہیں بلکہ بھارتی حکومت فوری طور پر ان بیانات کی مذمت کرے، دنیا بھر کے تمام مسلمانوں سے عوامی طور پر معافی مانگے اور نہ صرف ان کے خلاف کاروائی کرے بلکہ دوسروں کو بھی اس طرح کی توہین سے روکے۔اب دنیا میں جمہوریت اور انسانی آزادیوں اور حقوق کے عالمی ٹھیکیداروں کو بی جے پی کی مسلم و اسلام مخالف بلکہ ہر اقلیتی گروہ مخالف پالیسیوں کی سخت مذمت اور مخالفت کرنی ہوگی اور اسے سختی سے روکنا ہوگا۔ اور واضح کرنا ہوگا کہ بی جے پی کی جمہوریت کش اور اقلیت دشمن پالیسی کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔
بھارتی حکومت، بی جے پی اور دیگر ہندو انتہاپسند یاد رکھیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک اور ان کی توقیر ہر مسلمان کیلئے دنیا و مافیہا سے افضل ہے۔ آپ کی توہین تو خیر بہت بہت بڑا جرم ہے، اللہ تعالی کے کسی دوسرے پیغمبر، کسی بھی بزرگ ہستی، کسی رہنما بلکہ کسی عام انسان کی بھی توہین نہیں ہونی چاہیے اور ہر ایک کے جذبات، احساسات اور عقائد کا احترام کیا جانا چاہئے۔بی جے پی یاد رکھے کہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی شق انیس، سول اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدے کی شق انیس اور انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کی شق دس سمیت متعدد بین الاقوامی اعلامیوں کے مطابق آزادی رائے کا تصور لا محدود نہیں ہے اور جب آزادی رائے دوسروں کے حقوق یا ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہو یا قومی سلامتی، امن عامہ، صحت اور اخلاقیات کیلئے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہو تو اسے محدود کیا جاسکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے جاری پلان آف ایکشن میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز گفتگو کو بھی ہیٹ سپیچ میں شامل کیا گیا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد بی جے پی حکومت کی سرپرستی، ہندو انتہاپسندوں، سرکاری اداروں اور میڈیا کی ملی بھگت سے جاری ہے۔ جب سے بی جے پی کی صوبوں اور مرکز میں حکومتیں قائم ہوئی ہیں مسلمانوں کے مسائل کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ مودی حکومت کے دو چہرے ہیں۔ ایک دنیا کیلئے جس میں وہ خود کو انتہاپسندی کے خلاف جنگ کا سپاہی دکھاتا ہے اور دوسرا اصلی چہرہ اندرون ملک نظر آتا ہے جس میں وہ ملک کے اندر انتہاپسندی کا پرچارک اور حمایتی ہے۔
مغربی ممالک نے چونکہ اپنے مفادات کی وجہ سے بھارت میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی، تعصب، تشدد اور انتہا پسندی سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اس سے بھارتی انتہاپسند مزید جری ہوگئے ہیں۔مودی حکومت نہ صرف مسلمانوں کی خوشنودی کو ضروری نہیں سمجھتی بلکہ انہیں انتہاپسندوں کے رحم وکرم پر بھی چھوڑ دیا ہے۔ مودی اور دنیا یاد رکھے کہ جس قوم نے بھی یہ راستہ اختیار کیا ہے اسے نقصان، انتشار اور تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ نازی جرمنی، روانڈا، میانمار، سابقہ یوگوسلاویہ وغیرہ میں اس پالیسی کا نتیجہ سب دیکھ چکے۔ بھارت نے اگر اپنا طرزعمل درست نہ کیا تو یہ بھی تباہی سے نہیں بچ سکے گا۔
اب وقت آگیا ہے کہ تمام،بالخصوص، مال دار مسلم ممالک کشمیر، فلسطین اور دیگر مسلم علاقوں میں ظلم کے مرتکبین کو بتا دیں کہ وہ مسلمانوں اور اقلیتوں پر ظلم ختم کرکے انہیں جائز حقوق اور آزادی دیں بصورت دیگر انہیں عرب ممالک کیساتھ اربوں ڈالرز کی تجارت سے محروم ہونا پڑے گا۔ او آئی سی دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کو ناقابل قبول قرار دے‘ یورپی یونین اور ایف اے ٹی ایف کی طرز پر اپنا پابندیوں کا ایک نظام متعارف کرے۔ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے مشترکہ فنڈ قائم کرے اور باہمی سرمایہ کاری کو سہل بنائیں۔ اتحاد، انصاف اور ترقی کیلئے باہمی تعاون سے او آئی سی ممالک اپنی طاقت اور اثر ورسوخ میں اضافہ کر سکتے ہیں۔