کرکٹ کی دنیا کے بڑے نام

کرکٹ کو کسی دور میں ”جینٹلمینز گیم“ کہا جاتا تھا پر یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب ففٹی ففٹی اور ٹوئنٹی ٹوئنٹی نام کی کوئی شے کرکٹ کی دنیا میں موجود نہ تھی ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب انیس سو ستر کی دہائی میں آسٹریلیا کے ایک شخص نے کرکٹ میں ففٹی ففٹی میچوں کو شامل کرنے کی تجویز دی تو کئی پرانے کرکٹرز جن میں ہماری پہلی کرکٹ ٹیم کے کپتان عبدالحفیظ کاردار بھی شامل تھے انہوں نے اس تجویز کی بھرپور مخالفت کی اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ اس سے کرکٹ کے کھیل میں مالی بدعنوانیوں کا ایک دور شروع ہو جائے گا ففٹی ففٹی شروع کرنے کا یہ جواز دیا گیا کہ چونکہ ٹیسٹ میچوں کے فیصلے نہیں ہوتے اس لیے وہ اب بور ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ کرکٹ گراؤنڈز کا رخ نہیں کرتے لہٰذا ان کو کرکٹ گراؤنڈز کی طرف دوبارہ راغب کرنے کیلے ففٹی ففٹی کا اجرا ضروری ہے حالانکہ یہ دلیل بھونڈی تھی جسے وقت نے کئی کئی بار غلط ثابت کیا ٹیسٹ میچوں کے فیصلے ففٹی ففٹی کے مقابلوں کے اجراسے پہلے بھی ہوا کرتے تھے اور اس کے بعد بھی ہو رہے ہیں۔
ان کی ایک اپنی اہمیت ہے کہ جو ففٹی ففٹی یا ٹوئنٹی20 کے اجراء سے کسی طور بھی کم نہیں ہوئی یہ امر قابل افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں کرکٹ کے نوجوان شیدائیوں کو پاکستان کے کئی پرانے عظیم کرکٹرز کے بارے میں اتنی جانکاری نہیں کہ جتنی ہونی چاہئے آپ نے یہ بات ضرور محسوس کی ہو گی کہ اکثر ممالک اپنے عظیم کھلاڑیوں کو ہر سال ان کی برسی یا یوم پیدائش پر باقاعدہ ٹیلی ویژن کے دستاویزی پروگراموں کے ذریعے یاد کرتے ہیں اور اپنی نئی نسل کو ان کے کارہائے نمایاں سے آگاہ کرتے رہتے ہیں جبکہ اپنے ہاں اس قسم کی روایت آپ کو شاذ ہی ملے گی بہت کم لوگوں کو اس ملک کے ان عظیم کرکٹ کھلاڑیوں کے بارے میں علم ہو گا کہ جن کی محنت لگن اور اچھے کھیل کی وجہ سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی دنیا میں شناخت ہوئی جب پاکستان بنا تھا تو ابتدا میں کرکٹ کے کھیل میں اسے ٹیسٹ سٹیٹس حاصل کرنے کے لیے کافی محنت کرنا پڑی تھی اور اس ضمن میں جن کرکٹ کے کھلاڑیوں نے نمایاں کردار ادا کیا تھا ان کا ذکر ضروری ہے بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان کے کھیل پر پر پاکستان ٹیلی ویژن خصوصی دستاویزی فلمیں بنائے جو پھر کسی خاص موقع ہر سال ٹیلی کاسٹ کی جائیں اس ضمن میں پاکستان کرکٹ ٹیم کا 1954 میں انگلستان کا دورہ بڑی اہمیت کا حامل تھا۔
 اگست 1954 میں لندن کے مشہور زمانہ کرکٹ گراؤنڈ Oval اوول میں پاکستان نے پہلی مرتبہ انگلستان کی ٹیم کو 24 رنز سے شکست دی اس دور میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے جن کھلاڑیوں نے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا ان میں حنیف محمد‘ علیم الدین‘ وقار حسن مقصود احمد‘ شجاع الدین‘ذوالفقار احمد‘عبد الحفیظ کاردار‘فضل محمود‘محمود حسین‘خان محمد‘وزیر اور محمد امتیاز احمد شامل تھے افسوس کہ ایک آ دھ کو چھوڑ کر آج ان میں سے کوئی بھی بقید حیات نہیں ہے اس ٹیم میں خاص کر جس کھلاڑی کی کارکردگی کو بہت یاد کیا جاتا ہے وہ تھی میڈیم فاسٹ باؤلر فضل محمود کی باؤلنگ‘ان کے لیگ کٹرز کو انگریز بلے باز بالکل نہیں کھیل سکتے تھے اوول کے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی فتح کا سہرا یقینا فضل محمود کے سر جاتا ہے کرکٹ کے ناقدین کی رائے میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو آج تک عبد الحفیظ کاردار جیسا کپتان پھر دوبارہ میسر نہیں آیا وہ اوسط درجے کے آل راؤنڈر تھے پر ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ایک اعلی قسم کے منتظم تھے جہاں تک ڈسپلن کا تعلق تھا ٹیم کے تمام کھلاڑی ان کی عزت بھی کرتے تھے اور ان سے خائف بھی رہتے ہیں بلے بازی میں حنیف محمد کا جواب نہ تھا ہندوستان کے عظیم بیٹسمین سنیل گواسکر حنیف محمد کی بلے بازی سے بڑے متاثر تھے اور وہ اپنی بیٹنگ حنیف محمد کے انداز میں کیا کرتے تھے کیا ہی اچھا ہو اگر 1954 کی اس ٹیم پر ایک دستاویزی فلم بنائی جائے جو ہر سال اگست کے مہینے میں ٹیلی کاسٹ کی جائے کیونکہ اگست 1954 میں پاکستان نے اوول کے میدان میں ٹیسٹ میچ جیت کر دنیائے کرکٹ میں صحیح معنوں میں اپنی شناخت کروائی تھی۔