گھر میں داخل ہوتے ہی میرا دہلیز کے اوپر پہلا سوال ہوتا ہے کہ بجلی ہے۔مگر اس کا جواب مجھے پہلے سے ہے۔پھر بھی سوال کرنے میں کیا حرج ہے۔کیونکہ دنیا امید پر قائم ہے۔شاید میرے سوال کا وہ جواب مل جائے جو میں چاہتاہوں۔پھر ایک سوال کا پرچہ ہے۔آج ایف اے ایف ایس سی کے جوامتحانات شروع ہوئے ہیں ان میں تو ہر پرچہ میں متعدد سوالات ہیں۔مگر اپنے گھر کے بنے اس سوال نامے میں صرف ایک سوال ہوتا ہے۔پھر اس کے بعدنہ کوئی اور سوال ہوگا جس کا جواب ایک لائن کا ہو یاایک دو صفحوں کا ہو۔ اس سوال کا صرف ایک لفظ کا جواب ہے۔ہاں یا نا۔ مگر ہمیں پہلے سے پتا ہوتا ہے کہ اس سوال کے جواب دینے میں جو بھی سامنے ہوگا فیل ہوجائے گا۔کیونکہ اس کا جواب اکثر نا ہی میں آتا ہے۔ پھر اس جواب کے آ جانے کے بعد ہمارے لبوں پر خاموشی چھاجاتی ہے۔تمام امیدیں دم توڑ دیتی ہیں۔ دل میں آتا ہے کہ صاحب جی اب جلنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ سر کے اوپر چمکتا ہوا سورج ہے۔
جس کی تیز روشنی آنکھوں کوخیرہ کئے دیتی ہے او رنیچے زمین پر درو دیوار سے چھن کر آتی ہوئی حبس دل میں کچوکے دیتی ہے۔پھر اگر ہمارے سوال کا جواب ہاں میں بھی ہو تو کیا۔ بجلی اگر ہوتو نہ اے سی چلنے دی گی اور نہ ہی موجیں مارتی ہوئی روم کولر کی ٹھنڈی ہوا چہرہ ورخسار کواس غم کے عالم میں تھپکی دے گی۔بلکہ خدا نہ کرے ان کے علاوہ اور بجلی کے جو آلات ہیں الٹا ان کے خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔کیونکہ جون کی تپتی ہوئی دوپہروں اور جلتی ہوئی شاموں کڑکتی ہوئی صبحوں میں بجلی ہی کم ملتی ہے۔اتنی کہ چھت کے پنکھے تلے بیٹھ کر خاصے غصے میں آواز دینا پڑتی ہے یہ پنکھا کس نے آہستہ کیا تیز کرو اسے۔مگر جواب سنتے ہیں کہ پنکھا تو پورے کا پورا تیز ہے۔مطلب بجلی کم ہے۔اب بجلی کم ہو تو نہ اے سی کام کرتا ہے اور نہ دوسرے آلات صحیح طریقے سے چل پاتے ہیں۔ لگتا ہے کہ گھر کے کسی ایک فرد کا جس کوگرمی زیادہ لگ رہی ہے دماغ چل گیا ہے۔ اس موقع پر ہمارا بیانیہ بھی سن لیں او رپڑھ لیں۔پھر نہ سنیں تو سمجھ لیں۔وہ یہ ہے کہ کوئلہ کا انتظام کریں۔تاکہ جلتے ہوئے انگار پر ہنڈیادھر لیں اور اس آگ سے روشنی لے لیں۔کیونکہ گیس بھی تو ایک عرصہ ہوا چولھے میں آئی تھی۔مگر اس کے بعد کسی فرد نے سوئی گیس کی بُو تک نہیں سونگھی۔
سلینڈر ہوں تو ہوں۔مگر یہ نعمت بھی تو ہر گھر میں نہیں ہے۔لکڑیاں او ر خاشاک اکٹھی کر لیں۔بہت کام آنے والی چیز ہے۔ پھر لالٹینیں نکال لیں او رمٹی کے چراغوں کا اہتمام کر لیں۔شام کو ویسے بھی ایک آدھ بلب جلانا پڑتا ہے۔اگر بالفرض چراغ بھی نہ ہو اور لالٹین بھی نہ ہو تو نیاز مند کا شعر ہے ”روشنی کا کچھ انتظام کریں۔دل جلانے کا اہتمام کریں“۔روشنی تو چاہئے کوئلہ کے انگار سے یا لالٹین سے یا پھر چراغوں سے۔لگتا ہے پرانا زمانہ کود کر پھر آگیا ہے۔اب تو روشنی کے لئے لالٹین جلانا پڑے گی۔ مجھے گھر سے نکلنا تھا۔مگر بجلی غیر اعلانیہ چلی گئی۔ کہا گیا ٹھہرو کپڑے تو استری ہوں پھر نکلنا۔میں نے کہا نہیں اگلے کو جو وقت دیا ہے اس کے مطابق میں نے وہاں ان کے آفس پہنچنا ہے۔کپڑوں پر سلوٹیں ہو تو مجھے اس سلسلے میں کسی کوصفائی دینے کی ضرورت نہیں۔پھر کپڑوں کی ہر شکن گھر والوں کی بے پروائی کی شکایت کر بھی نہیں سکتی۔ ہر آدمی سمجھتا کہ گھر گھر بجلی کی شکایتیں ہیں۔اگر کسی کے کپڑوں پر سلوٹیں ہیں تو کوئی بھی اس کا خفقان نہیں کرتا۔سب کو سب معلوم ہے کہ یہا ں کیا ہورہا ہے۔صاحبان ہم نے ہاتھ کی پنکھیا ایک نہیں چار چار نکال لی ہیں۔
امیدہے کہ آپ نے بھی نکال کر رکھی ہوں گی کہ اس گرمامیں گرم ہوا کیلئے پنکھا جھلنے کو استعمال ہوں۔اب ہر گھر میں تو یو پی ایس نہیں او رنہ ہی چھوٹی بیٹریاں ہیں کہ ان سے پنکھا نہ سہی ایل ای ڈی کے کچھ بلب تو روشن ہو پائیں۔گھروں کے یوپی ایس بھی تو اپ ڈیٹ نہیں۔نیا یوپی ایس سسٹم لگا ہو وہ بھی تو اس بجلی کی چھپن چھپائی میں کام نہیں کرتا۔کیونکہ بجلی دو گھنٹہ رہے تو اس کی وجہ سے یوپی ایس کی بیٹری چارج ہو۔یہاں توحال یہ ہے کہ گھنٹہ بھر یوپی ایس نے کام کرنا ہے اس کے بعد اس نے بھی اپنی مخصوص آواز میں اطلاع دینا ہے کہ اب مجھ میں اتنی تاب نہیں کہ میں بجلی کی سپلائی مہیا کر سکوں۔اس کے بعد بجلی کا سب انتظام ایک دم فیل ہوجائے گا۔ گھرکے افراد جو الگ الگ کمروں کے مکیں ہوں سب ایک ہی پنکھے کے نیچے آکر بیٹھ جائیں تو پھر گذارا ہونا ممکن ہے۔وگرنہ تو سب کا دو دو گھنٹے کے بعد یوپی ایس کی بجلی سے فائدہ لینے کو ایک گھنٹہ پنکھے تلے بیٹھنا بھی درست نہیں۔کیونکہ بچے بھی ہیں جو ایک دوسرے سے الجھیں گے۔بجلی والوں کے ناروا سلوک نے گھر گھر میں وہ اودھم مچا رکھا ہے کہ کچھ نہ پوچھیں۔پھر اگر پوچھیں تو ہم کیا بتلائیں خود آپ کو سب معلوم ہے۔