لوڈ شیڈنگ کا عذاب

مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں دعویٰ کیا ہے کہ بجلی کے بحران پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں اوراگلے چندروز میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم ہو کر محض ساڑھے تین گھنٹے جبکہ 30 جون سے لوڈ شیڈنگ دوسے ڈیڑھ گھنٹے کے قریب رہ جائے گی‘سابق وزیر اعظم کی جانب سے یہ دعویٰ ان حالات میں سامنے آیا ہے جب پچھلے دنوں‘ جب سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے‘کے دوران ملک کے بعض علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بارہ سے بڑھ کر سولہ گھنٹے تک پہنچ گیاہے۔ہمارے ہاں تربیلا‘منگلا اور ورسک کے تین بڑے پاور پلانٹس جو سستی بجلی بناتے ہیں اورجن کی توسیع وترقی پر کئی برسوں سے کام جاری ہے‘تاحال مکمل نہیں ہوسکے ہیں‘اس پر مستزاد یہ کہ گزشتہ کئی سال کے دوران وطن عزیز میں بجلی کا کوئی نیا پلانٹ نہیں لگا‘پاکستان میں پانی سے سستی ترین بجلی بنانے کے وسیع مواقع دستیاب ہیں موجودہ حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں 8 روپے فی یونٹ تک کے اضافے کا جوفیصلہ کیاہے اس سے بجلی کاموجودہ نرخ فی یونٹ 25 روپے تک بڑھ جائیگا جبکہ دیگر اخراجات شامل کرنے سے یہ ریٹ فی یونٹ 60 روپے تک بڑھنے کاخدشہ ہے‘ جس سے عام لوگوں کی زندگی مزید اجیرن ہو جائے گی بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور باربار کی ٹرپنگ کااثر ویسے تو گھریلو صارفین پر سب سے زیادہ پڑ رہا ہے لیکن اگر دیکھاجائے تو اس مصیبت نے معاشرے کے تمام طبقات کویکساں طور پرذہنی مریض بنارکھاہے‘جاری لوڈ شیڈنگ سے ہسپتالوں میں داخل مریض سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں‘ وسری جانب بجلی اور گیس کی بے تحاشا لوڈشیڈنگ کے باعث عام شہری توانائی کے متبادل ذرائع ڈھونڈنے اور استعمال کرنے پرمجبور ہو رہے ہیں۔ ویسے تو پاکستان میں پچھلے کئی سال سے بجلی کی مسلسل لوڈ شیڈنگ اور کم وولٹیج کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے لوگ جنریٹرز،سولر پینلز، بیٹریوں اور یو پی ایس کے متبادل ذرائع سے اپنی مالی استطاعت کے مطابق رجوع کرنے پرمجبور ہورہے تھے لیکن موجودہ بحران کے باعث توانائی کے روایتی ذریعے سے متبادل ذرائع پر منتقلی کایہ عمل بہ امر مجبوری مزید تیز ہوگیا ہے جس کا ثبوت مارکیٹ میں بڑی تعداد میں شمسی توانائی سے چلنے والے ائر کولرز کا بکثرت نظر آنا ہے‘ البتہ گزشتہ برس کے مقابلے میں مذکورہ پنکھوں، کولرز اور بیٹریوں وغیرہ کی قیمتوں میں بھی چونکہ کئی گنا اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے متبادل توانائی پرمشتمل یہ اشیاء بھی غریب شہریوں کی قوت خرید سے باہر ہوتی جارہی ہیں‘ جس پر نہ صرف حکومت کی جانب سے ٹیکسوں میں چھوٹ کی ضرورت ہے بلکہ بازاروں میں مذکورہ سامان کے نرخوں کوکنٹرول میں رکھنے کیلئے ان پر چیک کابھی کوئی موثر نظام بروئے کار لایا جاناضروری ہے۔