مالی سال دوہزار اکیس بائیس کے دوران تقریباً چھ فیصد کی شرح نمو کا تخمینہ پریشان حال معیشت کے لئے بہتر ثابت ہوا لیکن یہ کافی نہیں تھا جس کی وجہ سے ادائیگیاں عدم توازن سے دوچار ہوئیں اور ملک کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے بحران کی طرف بڑھنے لگا۔ لب لباب یہ ہے کہ شرح نمو کو بڑھانا کامیابی نہیں بلکہ اسے برقرار رکھنا معاشی کامیابی کی کنجی ہوتی ہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے منظر عام پر آنے والے اقتصادی سروے دوہزاراکیس بائیس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قومی اکاؤنٹس کی بحالی کے بعد معاشی ترقی کا ہدف 4.8 فیصد کے مقابلے میں 5.97 فیصد (قریب چھ فیصد) رہا۔ سال دوہزارپانچ چھ اُور مالی سال دوہزار پندرہ سولہ تک قومی کھاتوں کی بحالی نے ’جی ڈی پی‘ نمو کے اعداد و شمار کو کافی حد تک بڑھایا‘جدید دنیا میں جی ڈی پی کی نمو یعنی اعداد و شمار کے حساب کتاب کے موازنے کے لئے پرانے طریقوں سے کام لیا جاتا ہے جس سے ثابت ہوا ہے کہ پاکستان کی معیشت پانچ فیصد سے بڑھ کر چھ فیصد تک بڑھ گئی ہے لیکن برسرزمین حقائق مختلف ہیں صنعتی شعبے میں سات اعشاریہ دو فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ خدمات کا شعبہ اب بھی جی ڈی پی میں اٹھاون فیصد کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ مزید برآں جولائی سے مارچ دوہزاربائیس کے دوران بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کی نمو میں دس اعشاریہ چار فیصد اضافہ ہوا۔ جولائی تا مارچ مالی سال دوہزاربائیس کے دوران مجموعی ٹیکس وصولی (وفاقی اور صوبائی)
اٹھائیس اعشاریہ ایک فیصد بڑھ کر چار ہزار آٹھ سو اکیس ارب روپے تک پہنچ گئی۔ جولائی تا مارچ مالی سال دوہزاربائیس میں مجموعی ترقیاتی اخراجات چوون فیصد اضافے کے ساتھ ایک ہزاربتیس ارب روپے سے زیادہ رہے۔ ایف بی آر کی ٹیکس وصولی جولائی تا مئی مالی سال دوہزاربائیس کے دوران اٹھائیس فیصد اضافے کے ساتھ پانچ ہزار چارسو ارب روپے سے زائد رہی۔ جولائی تا اپریل مالی سال دوہزاربائیس میں تجارتی خسارہ اُنچاس اعشاریہ چھ فیصد بڑھ کر بتیس اعشاریہ نو ارب ڈالر ہو گیا۔ جولائی تا اپریل مالی سال دوہزاربائیس کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ میں تیرہ اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کا خسارہ رہا جولائی تا اپریل مالی سال دوہزاربائیس کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گزشتہ سال صفر اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کے خسارے کے مقابلے میں تیرہ
اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر رہا ڈھانچہ جاتی رکاوٹوں کو دور کئے بغیر ملک نے اگلے بجٹ کیلئے جی ڈی پی کی شرح نمو کا ہدف پانچ اعشاریہ صفر ایک فیصد مقرر کیا ہے۔ قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف نے میکرو اکنامک عدم توازن پر اس کے اثرات کو سمجھے بغیر ترقی کا ہدف چھ فیصد مقرر کرنے کی خواہش کی‘ جس کے لئے پورے ”میکرو اکنامک فریم ورک“ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی پاکستان کے پالیسی ساز موجودہ میکرو اکنامک بحران کی سنگینی سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں غیر ملکی کرنسی کے ذخائر اگست دوہزاراکیس میں بیس ارب ڈالر سے کم ہو کر مئی دوہزاربائیس میں نواعشاریہ سات ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ اِس قدر کم ذخائر کے ساتھ بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی ناممکن ہو سکتی ہے۔ ملک کو معاشی بحران سے دوچار کرنے کے لئے مختصر‘ درمیانی اور طویل مدتی حکمت ِعملی بنانے کی ضرورت ہے۔