بیانہمارے ہاں جو ٹریفک کا رش ہے۔ یہ بھیڑ بھاڑ اوریجنل نہیں مصنوعی ہے۔اتنی گاڑیاں نہیں بنتیں جتنی بھاری تعداد میں نظر آتی ہیں۔مسئلہ ترتیب کا ہے۔ ٹریفک کی ترتیب ہماری سڑکوں پر کم ہی پائی جاتی ہے۔ چنگ چی رکشہ ہو یا آٹو رکشہ یا پھر لوڈر جو سامان سے لدا ہو۔ ہر قسم کا بائیک ہو یا سکوٹر یا گاڑی یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ سب کوبے صبری ہے۔سب چاہتے ہیں کہ دوسرے کا حق مار کر آگے نکل جائیں۔ ہمیں راستہ مل جائے دوسرا جائے بھاڑ میں۔جب تک ٹریفک میں یہ بے چینی اور سوک سینس کا نہ ہونا ختم نہ ہوگا ٹریفک کی روانی میں خلل جو دیکھنے میں آتا ہے یونہی قائم رہے گا۔خواہ شہرکے ہر میدان میں فی زمانہ خوب ترقی ہو مگر ٹریفک سینس جب تک بیدار نہ ہوگا تو ہماری قسمت جو دہائیوں سے سوئی ہے کبھی غفلت کی نیند سے نہیں جاگے گی۔یہاں تو اب حال یہ ہے کہ ایک ایک شہری کو لے جا کر چالیس روزہ ٹریفک ٹریننگ کورس کروانا پڑے گا۔ مگر پھر بھی حالت سدھرنے والی نہیں ہوگی۔ کیونکہ لاکھوں کی آبادی کے اس شہر میں ایک لاکھ کو بھی ٹریننگ دے دیں مگر باقی کو جو تربیت نہ ملے تو سمجھو خاک ترقی ہوئی پشاور کی اصلی آبادی تو بہت کم ہے مگر کاروبار کی غرض سے ہر صبح شہر میں داخل ہونے والے او رشام کو گھر واپس جانیوالے اتنے زیادہ ہیں۔اسی طرح کاروبار کے علاوہ دوسرے مقاصد یعنی تعلیم او رصحت او رسرکاری ملازمت پھر پرائیویٹ جگہ نوکریوں کی وجہ سے بھی یہ شہر کناروں تک بھرا ہوا ایک جام ہے جو باہر چھلک رہا ہے۔یہی حال رہا تو شہر میں ہر جگہ پیدل گھومنا بھی دوبھرہوجائے گا۔ پولیس والے بیچاروں خواہ ٹریفک کے ہوں یا تھانے والے ان کیلئے ٹریفک کے اس بہتے دریا کو کنٹرول کرنا ازحد دشوارہے۔ ایک گاڑی والے کو روک لیں تو پیچھے سے دس بیس گاڑی او ررکشے والے چپکے سے نکل جاتے ہیں سو یہ بھی کیا کریں۔ آبادی کے حساب سے اتنی نفری ہی نہیں‘ملک کو آگے ہی روپے پیسے اور روٹی پانی کی کمی کا سامنا ہے خواہ حکومت ہو یا عوام‘ سب پریشاں حال ہیں‘سو ایسے میں نئی پولیس بھرتیاں کہاں سے ہوں۔ سرکاری ملازمت والوں کو ان کی تنخواہ دینا سرکار کے لئے مشکل ہوا جاتا ہے تو پھر اس تنخواہ میں اضافہ کیوں نہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابرہو۔پھر ایسے میں وہ پولیس میں نئی بھرتیاں کیاکریں گے۔بس جتنے بھی اہل کارہیں انہی سے کام چلائیں گے۔ایسے میں عوام پر نظر رکھنا اور ٹریفک کے بہاؤ کو رواں رکھنا بہت مشکل کام ہے‘ پھر ہمارا اپنا بھی تو قصور ہے‘کسی کا ہمارے اوپر جبر کرنا او رہمیں مشکلات میں ڈالنا کیا معنی رکھتا ہے۔ہم خود کو ٹریفک کے معاملے میں خود تکلیف میں ڈالتے ہیں۔اگر ہم اپنی لین اور لائن میں چلتے جائیں تو سڑک پرکبھی ٹریفک بلاک نہ ہو یہ لوگ بے صبری اور جلدی میں ایک دوسرے کے راستوں پر قبضہ کر کے چلتے ہیں۔پھر اگلے چوک میں جاکر معلوم ہوتا ہے کہ ٹریفک بلاک ہے۔صرف ایک گاڑی سارے ٹریفک کو بلاک کر دیتی ہے‘پھر دوسرا مسئلہ یہ کہ شہر کی چھوٹی چھوٹی سڑکوں کے عین درمیان میں اس تنگی ترشی والی سڑکوں پربڑے بڑے ٹرک بھی دن کی روشنی میں گھسے ہوتے ہیں یوں شہریوں کا سکون بھی برباد ہو جاتا ہے اور ٹریفک بے ہنگم ہو جاتی ہے۔ایک کے پیچھے دوسرے نے اور دوسرے کے پیچھے تیسرے چوتھے گاڑی والے نے اپنے آپ کو جان بوجھ کر یوں الجھا دیا ہوتا ہے کہ ان کو راستہ نکالنے میں کافی دیر لگ جاتی ہے۔جیسے بارہ سنگھا جنگل میں درختوں اور جھاڑیوں میں اپنے سینگ پھنسا لے اور وہاں اس کی مدد کو کوئی پہنچ نہ سکے۔جیسے کوئی بچہ پتنگ اڑاتے ہوئے اپنے پاؤں میں آئی ڈور کو سلجھا نہ سکے۔سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ اپنے ہاتھ کو پہچانیں کہ ہم نے بائیں طرف چلنا ہے دوسرے کی حد میں داخل نہیں ہونا پھر اوور ٹیک کرنا ہے تو اگلی گاڑی کے رائٹ پر سے اس کو کراس کرنا ہے اگر یہ باتیں نہ ہو ں تو بتلاؤ پھر ٹریفک کا خوبصورت انتظام کہاں ہوگا۔یہ ہم ہیں جو اپنی سمجھ بوجھ کو کام میں لا کر خو داس ٹریفک کے بد ترین نظام کو ٹھیک کریں گے۔وگر نہ ٹریفک پولیس کی جتنی بھاری نفری کسی راستے پہ ڈال دیں کچھ نہیں ہونیوالا۔اب تو عوام بھی بے حس ہو چکے ہیں۔ٹریفک سارجنٹ کا ڈر ہی نہیں رہا۔پہلے توکسی بغیر ہیلمٹ والے کوفرلانگ بھر کے فاصلے پر پولیس اہلکار نظر آ جاتا تووہ وہیں سے ایک دم واپس مڑ جاتا۔مگر اب تو پاس سے گذر جاتے ہیں او رٹریفک والا بھی جان بوجھ کر توجہ نہیں دیتا۔