چین خود کو تنازعات اور جنگوں سے بچاتے اور معیشت پر بھرپور توجہ دیتے ہوئے عالمی معیشت میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس نے لاطینی امریکہ کے طول و عرض میں امریکہ پر تجارتی برتری بڑھا دی ہے۔چین نے ارجنٹینا، پیرو، چلی اور برازیل سمیت مختلف ممالک کے ساتھ اپنی تجارت اور تجارتی سرپلس میں اضافہ کردیا ہے۔ 2016 میں اس خطے میں امریکہ کی تجارت کا حجم 180 ارب ڈالر جبکہ چین کا 160 ارب ڈالر تھا۔ اگلے سال خطے میں چین کی تجارت کا حجم امریکہ کے برابر 205 ارب ڈالر ہوگیا۔ 2018 میں امریکہ کی تجارت یہاں 215 ارب ڈالر جبکہ چین کی 231 ارب ڈالر ہوگئی۔ 2019 میں تقریباً یہی شرح رہی۔ 2020 میں جو بائیڈن خطے میں امریکی تجارت بڑھانے کے عزم کے ساتھ صدر بنے لیکن امریکی تجارت کا حجم یہاں 177 ارب ڈالر پر آگیا جبکہ چین کے تھوڑا بڑھ گیا۔ 2021 کے اختتام تک امریکی تجارتی حجم 174 ارب ڈالر تک آگیا جبکہ چین کا 247 ارب ڈالرز سے تجاوز کر گیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان خطے میں تجارتی فرق خاصا بڑھ چکا ہے اورچین نے امریکہ کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔یاد رہے امریکہ اور میکسیکو بڑے تجارتی ساتھی ہیں۔ دونوں کے درمیان آزاد تجارت کا معاہدہ 1990 میں ہوا تھا اور یہ اعداد و شمار ان دونوں کی باہمی تجارت کے بغیر ہیں۔ وسائل سے مالامال جنوبی امریکہ میں شروع ہونے والے اس رجحان نے امریکہ کو ایک ایسے خطے میں چین سے پچھے کردیا ہے جو امریکہ کا گڑھ تھا۔ اگلے ہفتے صدر بائیڈن شمالی، جنوبی اور لاطینی امریکہ کا سربراہ اجلاس لاس اینجلس میں منعقد کررہے ہیں اور اس میں امریکی شراکت داری منصوبے کے تحت سرمایہ کاری بڑھانے اور سلسلہ رسد اور بین الامریکی ترقیاتی بینک کو مضبوط کرنے کے ذریعے تعلقات کی ترتیب نو کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم یہ اجلاس بھی تنازعات کا شکار ہوگیا ہے۔ بائیڈن نے اگلے ہفتے ہونے والے سربراہ اجلاس میں کیوبا، وینزویلا اور نکاروگوا کے سربراہوں خراب جمہوری ریکارڈ پر دعوت نہیں دی تو میکسیکو ہنڈراس اور گوئٹے مالا نے آنے سے معذوری ظاہر کردی۔ اگرچہ برازیل، کینیڈا اور ارجنٹینا سمیت بیس ممالک اس میں شرکت کرلیں گے۔ صدر بائیڈن نے حلف اٹھانے کے بعد کہا تھا کہ لاطینی امریکہ برسوں تک امریکی حکومتوں کی غفلت کا شکار رہا ہے اور اب ہم اس ہر توجہ مرکوز رکھیں گے مگر ہوا یہ کہ صدر ٹرمپ کے آخری سال خطے میں شروع ہونے والی چین کی تجارتی برتری بڑھتی ہی جارہی ہے۔امریکہ اس دوران بین الاقوامی تھانیداری میں مصروف اور تنازعات میں الجھا رہا اور اس نے خطے میں اپنے تجارتی حجم میں اضافہ کیلئے کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا۔ اس کے برعکس چین، جو اس خطے کی بڑی پیداوار غلے اور دھاتوں کا بڑا خریدار ہے، نے خود کو خطے کے ممالک کے لیے تجارت، معاشی و تکنیکی تعاون اور سرمایہ کاری کا ذریعہ بنادیا۔امریکی اہلکاروں نے کئی دورے کرکے اپنے لاطینی شراکت داروں کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ چین کے مقابلے میں ایک بااعتماد ساتھی ہے جبکہ چین ملکوں کو صرف قرضوں کے دام میں گھیرنا چاہتا ہے۔ مگر امریکہ کیلیے چیلنج سخت ہے کیوں کہ چین کے پاس کافی پیسہ ہے جو وہ ضرورت مند ممالک کو دے سکتا ہے۔ پھر لاطینی امریکہ کے میکسیکو، پھر بولیویا، پیرو، ہونڈوراس، چلی اور برازیل میں مغرب مخالف بائیں بازو کی حکومتیں قائم ہوئی ہیں۔ ابھی ایل سلواڈور، یوراگوئے اور ایکواڈور تک یہ رجحان نہیں پھیلا مگر لاطینی امریکہ پہلے کبھی اتنا بائیں بازو اور امریکہ مخالف حکومتوں کے زیر اثر نہیں رہا۔ ان کی وجہ سے چین خوش ہے مگر امریکہ کے لیے وینزویلا، نکاراگوا اور کیوبا میں بائیں بازو کی حکومتوں کو الگ تھلگ کرنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔میکسیکو اور امریکہ کی باہمی تجارت شامل کی جائے تو پھر خطے میں امریکہ کا تجارتی حجم زیادہ ہے۔ امریکہ اور میکسیکو کی تجارت کا حجم پچھلے سال 607 ارب ڈالرز رہا۔ جبکہ چین کے ساتھ بھی میکسیکو کی تجارت تب کے 75 ارب ڈالر سے پچھلے سال 110 ارب ڈالر ہوگئی ہے۔ یعنی چین میکسیکو کے ساتھ بھی تجارت بڑھا رہا ہے۔ 2021 میں چین میکسیکو تجارت پچھلے سال سے تقریبا پچاس فیصد بڑھ کر 98 ارب ڈالر رہی جس میں میکسیکو کی چین سے درآمدات 90 ارب ڈالر رہیں جبکہ اس نے چین کو صرف 8.4 ارب ڈالر کی برآمدات کیں۔ یعنی یہاں بھی تجارتی توازن 82 ارب ڈالر تک چین کی طرف ہے۔2021 میں چین کی ریکارڈ توڑ برآمدات کی وجہ سے اس کا سالانہ تجارتی سرپلس”برآمدات سے زیادہ آمدنی“نئی بلندیوں ہر پہنچ گیا ہے۔ اس کی پورے سال کی کل برآمدات 3.36 ٹریلین ڈالر جبکہ درآمدات 2.69 ٹریلین ڈالر رہیں یعنی2021 میں اس کا تجارتی سرپلس 676 بلین ڈالر رہا۔یاد رہے 2021 میں چین امریکہ تجارت 28.7 فیصد اضافہ کے ساتھ 755.6 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں جن میں چین کی درآمدات 160 ارب ڈالرز سے کم رہیں۔ یعنی یہاں بھی چین کا پلڑا بھاری ہے۔ یورپی یونین کے ساتھ بھی چین کا تجارتی سرپلس 58 فیصد بڑھ کر 209 بلین ڈالر اور امریکہ کے ساتھ اس کا سرپلس 25 فیصد بڑھ کر 397 بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔چین کے قومی ادارہ شماریات کے مطابق 2021 میں چین کی خام قومی پیداوار 17.7 ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی جو 2020 سے آٹھ فیصد یا 3 ٹریلین ڈالر زیادہ ہے۔2022 میں چین کی جی ڈی پی 19.9 ٹریلین ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے اور یہ ممکنہ طور پر اگلے پانچ سالوں میں امریکی جی ڈی پی سے تجاوز کرلے گا۔ یاد رہے امریکی معیشت تقریبا پانچ فیصد بڑھ رہی ہے اور اس کی خام قومی پیداوار 22 ٹریلین ڈالرز ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کا سالانہ امریکی تجارتی خسارہ اس کے شعبہ معاشی تجزیہ کے مطابق، 2021 میں 859.1 بلین ڈالر تھا کیوں کہ اس کی درآمدات 3.4 ٹریلین ڈالر جبکہ برآمدات محض 2.5 ٹریلین ڈالر تھیں۔ اب چین عالمی معیشت کا محور ہے۔ اس وقت وہ تقریبا اٹھارہ ٹریلین ڈالرز کی جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے جو امریکہ سے صرف چھ ٹریلین امریکی ڈالرز کم ہے اور چار پانچ سال میں وہ شاید دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے۔امریکہ ہر جگہ اور ہر معاملے میں چین کے مقابلے کی کوشش کر رہا ہے لیکن بظاہر چین کو روکنا اب اس کیلیے ممکن نہیں رہا۔