گاڑی کو چلانا بابو

کار کو الٹا چلا کر سیدھے جانے کا واقعہ پہلے نہ دیکھا نہ سنا۔کیا ون ویلنگ کرنے والے کم نہ تھے۔ جواب گاڑی کو ریورس پر چلا کر آگے لے جانے والے بھی پیدا ہو چکے ہیں۔ جانے ہم نے اب اور کون سا دن دیکھنا ہے۔ بہتری تو نام کو نہیں۔الٹا جو ناسور پہلے تھے ان میں فراوانی ہو رہی ہے۔ون ویلنگ کے جان لیوا مرض نے بہت سے گھروں کے چراغ گل کئے۔پھر وہ آگ ایسی کہ گھر گھر تک پھیل چکی ہے۔اب یہ جو نیا ناسور نکلا ہے اس کو اگر وقت پر روک لیا جائے تو شاید یہ وباریورسں پر آگے نہ جا سکے۔ جی ہاں آپ نے بھی دیکھا ہوگا اور دنیا نے دیکھا۔ سوشل میڈیا پر ایک مووی کلپ وائرل ہوا ہے۔جس میں ایک شہری شاید اپنی جان سے تنگ ہوگا۔اس نے جاتی ہوئی گاڑیوں کے رش میں اپنی گاڑی اسی سمت میں الٹی چلا کر شاید نوبل پرائز حاصل کرنا چاہا۔مگر دنیا کو دکھلا دیا کہ ہر الٹا کام ہم میں سے نکلتا ہے۔میں سچ کہتا ہوں یہ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔مگر ان کو موقع نہیں دیا گیا۔ ان کو وسائل مہیا نہیں ہیں۔ وگرنہ انھیں میں کتنے ہی نیوٹن اور آئن سٹائن اب بھی چھپے بیٹھے ہیں۔۔ سوشل میڈیا جو ہے نا اس نے بہت معاملات بگاڑ دیئے ہیں۔
ہر الٹے کام پر ہم لوگ فخر کرتے ہیں۔پھر اسی کشمکش میں کہ ہم کچھ نیا کر کے بتلائیں الٹی سیدھی حرکات پر مبنی موویاں اپ لوڈ کر کے ٹک ٹاک کی وائرل بیماری کو اور زیادہ پھیلا رہے ہیں۔ہر بند ہ چاہتا ہے کہ جو دوسرے نے الٹی پلٹی حرکت کی میں اس سے زیادہ کر کے بتلاؤں تاکہ میرا نام ہو ”بدنام نہ ہوں گے کیا نام نہ ہوگا“۔اب بھلا کیاضرورت ہے کہ سیدھی نہ سہی تو الٹی گاڑی چلائی جائے۔ون ویلنگ والے الٹی کھوپڑی کے ہوتے ہیں۔کسی کی نہیں سنتے۔زخمی ہوکر ہسپتال پہنچتے ہیں۔وہاں یہ لوگ آخری سانس لیتے ہیں۔اس کے بعد ان کے لواحقین شور مچاتے ہیں کہ ڈاکٹروں کی غفلت سے ہمارا مریض دم توڑ گیا۔ حالانکہ ڈاکٹروں کی غفلت سے پہلے کے وہ مناظر جو سڑک پر اسی نوجوان نسل نے سرانجام دیئے ہوتے ہیں۔ان کی موویاں نیٹ پر آتی ہیں تو ان کے گھر کے بڑے باوجود اس کے اپنی اولادکو بے قصور گردانتے ہیں۔اب اس چار پہیوں کی گاڑی والے کو کیا ضرورت تھی کہ وہ سڑک پر گاڑی کو الٹا چلا کر آگے جا رہا ہے۔کہیں خود زخمی ہو جائے یا دوسرے کسی کو زخمی کر دے۔پھر نہ ہی ڈرائیور کو عوام کے بہتے دریا میں سے کسی فرد نے روکنے کی کوشش کی۔
لوگ کہتے ہیں شاید اس کار چلانے والے کو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام درج کروانے کا لالچ ہوگا۔یہ وہ سڑک ہے جہاں روز وی آئی پی سرکاری لوگ گاڑیوں کے قافلے میں جاتے آتے ہیں۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہمارے ہاں غلط رواج اور عادات تیزی سے پروان چڑھتی ہیں جبکہ اچھے رویے جڑے پکڑنے میں وقت لگتا ہے دوسروں کی پیروی ان کاموں میں زیادہ کی جاتی ہے جس کے نتائج معاشرے کے لئے مثبت نہیں ہوتے جبکہ مثبت سرگرمیوں میں ایک دوسرے کی پیروی مشکل سے کی جاتی ہے۔ مراد یہ کہ اب ہماری سڑکیں بھی اسلام آباد کی سی ہو گئی ہیں۔جہاں یہی ون ویلنگ اور دوسرے کھیل تماشے عام او رسرِ عام ہوئے جاتے ہیں۔ یہی نہیں کہ سڑکوں پر کیمرے نہیں لگے ہوئے۔ ٹریفک کے بڑے دفتر میں بہت سی سکرینیں سرِ دیوار ٹانکی ہوئی ہیں۔جہاں شہر کے ہر چو رستے اور شاہراہ کی موویاں لائیوو دیکھی جاتی ہیں۔پھر ایسا بھی نہیں کہ وہ ان کیمروں کو ریکارڈنگ پررکھ کر سو گئے ہیں۔باقاعدہ پولیس مین سفید کپڑوں میں وہاں بیٹھے سکرین پر نگاہ رکھے ہیں۔یہ گاڑی سڑک پر آئی اور اس کو کسی نے سکرین پر نہ دیکھا۔ وگرنہ اس گاڑی کو دبوچنا دو منٹ کا کام بھی نہیں تھا۔ جدید ٹیکنالوجی اسی لئے ہی وجود میں آئی ہے کہ اس کو استعمال میں لا کر جرائم اور دیگر خطرناک سرگرمیوں کو روکنے میں کامیابی حاصل کی جائے یہ الگ بات ہے کہ اجتماعی اور انفرادی طور پر ہم نے ٹیکنالوجی سے زیادہ استفادہ منفی انداز میں کیا ہے۔