روٹی نامہ

مجال ہے کہ جون کا مہینہ ان کی راہ میں حائل ہوتا ہو۔شادیاں جاری ہیں اور خوب دھوم دھڑکے سے جاری ہیں۔ آئے روز شادیوں کے دعوت نامے موصول ہوتے ہیں۔پھر ہم بھی کون سا اس موقع پرگرمی سے ڈرتے ہیں۔ یوں تو شادی بیاہوں سے ہٹ کر گرما کاآتش فشاں لاوا خوف میں مبتلا کر دیتا ہے۔مگر کسی دعوت کا کارڈ یا وٹس ایپ پر دعوتی رقعہ اور ایس ایم ایس آ جائے تو ہمارا جانا ٹھہر جاتا ہے۔ کیا اچھا ہے کہ کھانے پینے کا بہانہ الگ اور تفریح بھی ہو جاتی ہے۔اپنے پرایوں سے مل پاتے ہیں۔گپ شپ ہو جاتی ہے۔میل ملاپ کے موقع پر دو کہتے ہیں دو سنتے ہیں۔بلکہ دو دو چار چار کہتے سنتے ہیں۔یوں دل اچھا ہو جاتا ہے۔کیونکہ اب تو ملنا ملانابس تقریبات تک محدود ہو چکا ہے۔خوشی کے موقعوں کے علاوہ دیگر گیدرنگ بھی ہوتی ہے۔جس پردوستوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ورنہ تو آج کل اپنے جگری تارک الوصل ہو چکے ہیں۔ملتے ملاتے نہیں۔ کچھ زمانے کے چلن کے ہاتھوں اور کچھ طبیعت کے بیزار ہونے کے کارن الگ تھلگ ہو چکے ہیں۔ایسے میں خاندان کی اور کہیں دوستوں میں کوئی تقریب ہو تو بہت بھلاہے۔کیونکہ وہ جو ملنا ترک کر بیٹھے وہ اس بہانے بادلِ نخواستہ محفلوں میں شریک ہونے کو آتے ہیں۔

اس وجہ سے ان سے پیار و محبت کی دو چار باتیں ہوں جائیں تو اس میں کیا برا ہے۔پھر اس مہنگا ئی کے دور میں اب اپنے گھر میں کھانا پینا تو عام طور دشوار ہو چلا ہے۔کیا پتا کون ایک وقت کی کھارہا۔پھر اگر گھر میں دسترخوان پر دال مسور بھی ڈونگے میں پڑی ہو اورساتھ سبز مرچیں تل کر پروسی گئی ہوں اوپر گھی کا تار بھی دیا گیا ہو تو یہ کون سی ارزاں ڈش ہے۔یہ بھی تو مہنگی ہے او راتنی کہ اب تو بس سے باہر ہونے لگی ہے۔پہلے تو کچھ نہ تھا دال تو تھی اب تو دال کو ہاتھ لگانااور دکاندار سے اٹھانا یوں ہے کہ جیسے منوں کے حساب سے کلو کا شاپر بوجھل ہو۔پھر گاہک کی سکت نہ ہو کہ وہ اسے اٹھانے کو آگے بڑھے۔سو ایسے میں شادی بیاہوں میں جاکر کھانا تو محبوب مشغلہ ٹھہرے گا۔ وہ جو شادیوں میں اور دیگر خاندانی تقریبات میں شرک کرنا طبیعت کا خلجان جانتے تھے۔ وہ بھی اب اس قسم کی محفلوں میں جانا باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔

کیوں نہ سمجھیں کہ طعام میں کھانا تناول کر کے گھر کے بجٹ میں سے کٹوتی کر لیں گے۔ ایک وقت کا کھانا یا کھانے کی رقم کی بچت ہو جائے گی۔ پھر تقریبات کے کھانے بھی کوئی پرہیزی اورغریبانہ پیش کش کے تو نہیں ہوتے۔ وہ پر عیش طعام ہوتا ہے۔اس مہنگائی میں یہ تقریبات غنیمت ہیں کہ شادی بیاہ کی تقریبات اور خوشی کے دوسرے مواقع پر جا کر پیٹ بھر کے آجانا کیا برا ہے معاشرہ کچھ ایسی راہوں کا مسافر ہو چکا ہے کہ یہ رستے جاکر براستہ خود غرضی مزید دور ہوئے جاتے ہیں۔ شہری اب وٹس ایپ پر بھیجے گئے کارڈ کو قبول کرنے لگے ہیں۔وہ جو ضد کرتے تھے اور شادی میں شرکت بھی کرنے سے انکار کر دیتے کہ مجھے شادی کی دعوت وٹس ایپ کارڈ کے ذریعے کیوں دی گئی ہے۔

وہ جو ایس ایم ایس کو گھٹیا ترین شئے سمجھ کر دعوت وصول کر کے بھی شادی میں سرے سے شرکت نہیں کرتے تھے۔ اب انھوں نے ایس ایم ایس پر شادی کی دعوت دینے کو قبول ِ عام کا درجہ دے دیا ہے۔وہ اس موقع پر فرمایا کرتے تھے کہ دولہے کے والدین اور گھر کے باقی افرادشادی کا دعوت نامہ لے کر میرے دروازے پر خود کیوں نہیں آئے۔ لیکن اب فی زمانہ ہم لوگ ایک دوسرے کی مجبوری کو سمجھنے لگے ہیں۔ سب ایک دوسرے کی مشکلات سے واقف ہیں۔کیونکہ معاشرہ میں مہنگائی کا ناسور اب جڑوں تک پہنچ چکا ہے۔سو ایسے میں غریب غربا تعلق داروں کا کسی کے ولیمہ اور بارات میں پیٹ بھر کر کھالیناشادی والوں کیلئے کتنا باعثِ اجر ہے۔