مشکل حالات میں متوازن بجٹ

یہ اندازے غلط ثابت ہوگئے کہ موجودہ اتحادی حکومت سخت فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے اور وہ جلد یا بدیر سخت فیصلے کیے بغیر معاملات کو نگران حکومت کے سپرد کرتے ہوئے انتخابات کی طرف جائے گی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر روپے کی قدر میں 10 روپے کی کمی ہوگی تو اس سے تقریبا 1.5 فیصد سے 2 فیصد تک مہنگائی بڑھے گی۔وفاقی بجٹ میں رواں مالی سال فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) محصولات کا ہدف 6 ہزار ارب روپے سے بڑھا کر 7004 ارب روپے کردیا گیا ہے۔ رواں سال صوبوں کو 3512 ارب روپے منتقل ہوئے جبکہ آئندہ مالی سال 4100ارب روپے منتقل ہوں گے۔ اس طرح رواں مالی سال وفاق کے حقیقی محصولات 3803 ارب روپے سے بڑھ کر 4904ارب روپے ہوں گے۔نئے وفاقی بجٹ میں امیر طبقے پر ٹیکسوں کو بڑھایا گیا ہے اور اس کا برملا اعتراف وزیرِ خزانہ نے اپنی تقریر میں بھی کیا۔کہ ٹیکس کا بوجھ غریب سے امیر کی طرف منتقل کیا جائے۔ اسی لیے سب سے پہلے وفاقی حکومت نے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے کم از کم قابل ٹیکس آمدنی 6 لاکھ روپے سالانہ سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے سالانہ یا ایک لاکھ روپے ماہانہ کردی ہے۔ بجٹ تجویز کے مطابق 6 لاکھ روپے تک آمدن پر ٹیکس استثنیٰ ہوگا اور 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے تک تنخواہ پر 100 روپے ٹیکس ہوگا۔چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو بھی ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے اور انہیں ٹیکس کی چھوٹ 4 لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ روپے کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسی طرح چھوٹے دکانداروں پر فکسڈ ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔ یہ ٹیکس 3 ہزار روپے سے لے کر 10 ہزار روپے ہوگا جو بجلی کے بلوں کے حساب سے عائد کیا جائیگا۔ ایف بی آر کے تخمینے کے مطابق ملک میں 65 لاکھ دکانیں موجود ہیں اور اگر ان پر اوسطا 6 ہزار روپے ٹیکس وصول کیا جائے تو یہ تقریبا 40 ارب روپے کی آمدنی ہوگی۔

بجٹ میں ایک طرف تو تنخواہ دار اور چھوٹے کاروباری افراد پر ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے تو دوسری طرف امیر طبقے پر ٹیکس کا بوجھ بڑھایا گیا ہے۔ ایسے تمام افراد اور کمپنیاں جن کی سالانہ آمدن 30 کروڑ روپے یا اس سے زائد ہو، ان پر 2 فیصد اضافی ٹیکس عائد کرتے ہوئے 29 فیصد سے بڑھا کر 31 فیصد کردیا گیا ہے جبکہ مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومت نے کارپوریٹ ٹیکس میں کمی کی تھی۔اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس فائلرز کے لیے جائیدادوں کی خرید و فروخت پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح ایک فیصد سے بڑھا کر 2 فیصد جبکہ نان فائلرز کی حوصلہ شکنی کیلئے ایڈوانس ٹیکس کی شرح 5 فیصد کردی ہے۔اس طرح گاڑیوں کی خریداری پر بھی ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے۔ 1600 سی سی سے زیادہ کی گاڑیوں پر ایڈوانس ٹیکس بڑھایا گیا ہے۔ الیکٹرک گاڑی 2 فیصد کی شرح سے ایڈوانس ٹیکس جبکہ نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح کو 100 فیصد سے بڑھا کر 200 فیصد کیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک طرف حکومت انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی)کو بڑھانا چاہتی ہے تو دوسری طرف موبائل فونز کی درآمد کی حوصلہ شکنی بھی کررہی ہے‘بجٹ دستاویز کے مطابق بجٹ 23-2022 میں 30 ڈالر سے 700 ڈالر کے موبائل فون پر 100 روپے سے لے کر 8 ہزار روپے تک لیوی عائد کی گئی ہے جبکہ 701 ڈالر یا اس سے زائد مالیت کے موبائل فون پر 16 ہزار روپے لیوی عائد ہوگی۔

اس طرح موبائل فونز مزید مہنگے ہوجائیں گے۔بجٹ میں صرف موبائل فونز پر لیوی عائد نہیں کی گئی بلکہ ٹیلی کمیونیکیشن سروسز پر ایکسائز ڈیوٹی 16 فیصد سے بڑھا کر 19.5 فیصد کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان پہلے ہی موبائل فونز خدمات پر سب سے زیادہ ٹیکس عائد کرنے والا ملک بن گیا ہے اور اب لیوی اور ایکسائز ڈیوٹی کے اضافے سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مقامی اور برآمدی فروغ کو شدید دھچکا لگے گا۔آئندہ مالی سال کے بجٹ میں توقع کے عین مطابق حکومت نے نئی سرکاری گاڑیوں کی خریداری پر پابند عائد کردی ہے جبکہ 1600 سی سی سے زائد کی موٹر گاڑیوں پر ایڈوانس ٹیکس بڑھانے کی تجویز دی ہے۔ اس کے علاوہ الیکٹرک گاڑیوں پر قیمت کے 2 فیصد کی شرح سے ایڈوانس ٹیکس بھی وصول کیا جائے گا جبکہ نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح کو موجودہ 100فیصد سے بڑھا کر 200 فیصد کیا جائے گا۔ان اقدامات سے آٹوموبیل سیکٹر کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ حکومتی سطح پر گاڑیوں کی خریداری بند ہونے سے یہ سیکٹر اپنے سب سے بڑے خریدار سے محروم رہ جائے گا۔

ٹیکس میں اضافے سے عام خریدار کی قوت خرید میں کمی ہوگی جبکہ پہلے ہی اسٹیٹ بینک گاڑیوں کی فنانسنگ پر مدت میں کمی اور ڈاون پیمنٹ کی شرح میں اضافہ کرچکا ہے۔اس بجٹ میں مختلف اشیا ء پر سے سیلز ٹیکس کو ختم کردیا گیا ہے۔ ان میں سرِفہرست ماحوال دوست توانائی کے حصول کا اہم ذریعہ سولر پینل ہیں جن پر پہلے 17 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا تھا مگر اب اس کو واپس لے لیا گیا ہے جبکہ ادویات کے خام مال پر عائد سیلز ٹیکس کو بھی واپس لیا گیا ہے۔ فارماسیوٹیکل سیکٹر کے لیے 30 سے زیادہ ایکٹیو فارماسیوٹیکل انگریڈینٹس (کسی دوا کیلئے درکار اجزا)کو کسٹم ڈیوٹی سے مکمل استثنی دیا گیا ہے۔بجٹ میں سولر پینل پر عائد سیلز ٹیکس کو واپس لے لیا گیا ہے۔گزشتہ 3 سال میں عالمی منڈی میں خوردنی تیل کی قیمت 119 فیصد بڑھی ہے جبکہ پاکستان میں روپے کی قدر میں 23 فیصد کمی ہوئی ہے دوسری جانب پاکستان کا خوردنی تیل کا درآمدی بل 2 ارب 63 کروڑ ڈالر سے بڑھ کر 5.45 ارب ڈالر ہوگیا ہے یعنی اس میں 107 فیصد اضافہ ہوا۔اسی اضافے کو مدِنظر رکھتے ہوئے وفاقی وزیرِ خزانہ نے خوردنی تیل کے مقامی بیجوں یعنی کنولا، بنولا اور سورج مکھی کی کاشت پر کسانوں کو مراعات دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ زرعی مشینری کے حوالے سے بھی کسانوں کو بجٹ میں رعایت دی گئی ہے۔یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ حکومت نے مشکل ترین حالات میں ایک بہتر اور متوازن بجٹ پیش کیا ہے۔ جس کے مثبت اثرات آنے والے دنوں میں سامنے آئینگے اور معیشت کو مستحکم کرنے کی جو پالیسی اختیار کی گئی ہے وہ نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔