جنگل کی آگ 

کوئی خبر پلک جھپکتے ہی پورے شہر میں پھیل جائے تو کہتے ہیں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی وجہ یہ ہے کہ جنگل کی آگ بہت جلد پھیل جا تی ہے مگر آج ہم محا ورے کی بات نہیں کر رہے حقیقت کی دنیا میں خیبر پختونخوا کے جنگلات میں آئے روز لگنے والی آگ کا ذکر کر رہے ہیں اخباری خبروں کے مطا بق پچھلے ایک سال میں خیبر پختونخوا کے جنگلوں میں 210مقا مات پر آگ لگنے کے واقعات ہوئے بعض واقعات میں ایک ہفتے سے کم مدت میں آگ بجھا ئی گئی بعض واقعات میں ایسا بھی ہوا کہ آگ بجھا نے میں ہفتے سے زیا دہ دن لگے بعض مقا مات پر پاک فوج نے ہیلی کا پٹروں کی مدد سے آگ بجھا ئی، تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ سوات کے پر فضا مقا م مر غزار کے جنگلات میں آگ لگی اور آگ کا دائرہ مقا می آبادی کو اپنی لپیٹ میں لینے لگا سوات، دیر، چترال اور ملا کنڈ ڈویژن کے دیگر مقا مات پر جنگل میں آگ لگنے کے بے شمار واقعات ہوئے دو مہینوں کے دوران ملا کنڈ ڈویژن میں گیا رہ مقامات پر جنگل میں آگ لگنے کے کئی واقعات سامنے آئے۔ عام آدمی، عام شہری اور اخبارات
 کے قارئین کیلئے یہ ایک معمہ ہے کہ جنگل میں آگ کیوں لگتی ہے؟جنگلات کے ماہرین کا خیال ہے کہ جنگل میں آگ بے شما ر وجوہات سے لگتی ہے کبھی ایسا ہو تا ہے کہ آسما نی بجلی گر تی ہے مگر ایسا بار بار نہیں ہو تا کئی سا لوں کے بعد شاذو نا در آسما نی بجلی گر نے کا واقعہ رونما ہوتا ہے یہ اتنا بڑا سانحہ ہو تا ہے کہ اس کو چھپا یا نہیں جا سکتا‘ بسا اوقات غلط منصو بہ بندی کی وجہ سے بجلی کی بلند ترین وولٹیج والی لا ئن جنگل سے گزاری جا تی ہے اور اس صورت میں بجلی کے کسی نا گہا نی نقص کی وجہ سے بھی جنگل میں آگ لگ سکتی ہے مگر یہ بھی بڑا واقعہ ہو تا ہے ارد گرد کی بستیوں کو اس کا پتہ لگ جا تا ہے پوری آبادی کو اس کی خبر ہو جا تی ہے جنگل میں آگ لگنے کی بڑی وجہ جنگل کے اندر کٹی ہوئی لکڑیوں اور جھا ڑیوں کے ملبے کو قرار دیا جا تا ہے درختوں کو کا ٹنے کے بعد اگر ان کا ملبہ نہیں اٹھایا گیا، زمین کو صاف نہیں کیا گیا تو اس کے دو نقصا نات ہوتے ہیں پہلا نقصان یہ ہو تا ہے کہ زمین پر نئے پودے نہیں اُگتے، درختوں کی جڑوں سے نئے شگوفے پھوٹنے کا عمل رک جا تا ہے جنگل بانجھ ہو جا تا ہے دوسرا نقصان یہ ہو تا ہے کہ پرانے ملبے میں تھوڑی سی چنگا ری بھی گر جائے تو ملبہ آگ پکڑ لیتا ہے جو پورے جنگل کو گھیر لیتی ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنگل میں چنگا ری کہاں سے آتی ہے؟ یہ سو ملین ڈالر والا سوال ہے اور اسکے جواب میں تین بڑے امکانا ت گنوائے جا تے ہیں پہلا امکان یہ ہے کہ چرواہے آگ جلا کر اس کی گرم راکھ اور چنگا ریاں چھوڑ جا تے ہیں جو ہلکی سی آندھی میں آگ پکڑ لیتی ہیں، دوسرا بڑا امکان یہ ہے کہ شکاری، سیاح اور دوسرے لو گ خفیہ یا اعلانیہ جنگل میں گھومتے
 ہوئے سکریٹ سلگا تے ہیں، ما چس یا بچا ہوا سگریٹ زمین پر پھینک دیتے ہیں جس سے گھاس پھو س میں آگ سلگ اٹھتی ہے، تیسرا قوی امکا ن یہ ہے کہ کسی تخریب کار نے جان بوجھ کر یہ آگ لگائی ہو۔ وجہ جو بھی ہو جنگلات کا محکمہ اس کا ذمہ دار ہے، ملبہ ہٹا نا، جنگل کی زمین کو صاف رکھنا بھی محکمے کی ذمہ داری ہے‘ چرواہوں‘ شکا ریوں اور سیا حوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا بھی محکمے کی ذمہ داری ہے اس حوالے سے قواعد و ضوابط مو جود ہیں جنکو سٹینڈرڈ آپریٹنگ پر و سیجر (SOP) کہا جا تا ہے ان قواعد و ضوابط میں کوئی جھول یا ابہا م نہیں یہ بڑے صاف اور واضح ہیں ہر جنگل کو کمپارٹمنٹ اور بلاک میں تقسیم کیا گیا ہے رینج کے اندر ہر بلا ک کا الگ عملہ ہے، اور نچلی سطح پر نگرا نی کا پورا نظام بنا یا گیا ہے محکمہ جنگلات کا عملہ باوردی فورسز میں شمار ہو تا ہے صو بائی سطح پر اس فورس کو ڈاکٹر جی ایم خٹک کے زما نے کی طرح دوبارہ منظم کرنے کی ضرورت ہے تا کہ جنگل میں بار بار آگ لگنے کے واقعات کی موثر روک تھا م ہو سکے یہ SOS پیغام ہے اور اس پر ہنگا می طور پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔