مزے جہان کے خاک نہیں 

اگر کسی کا خیال ہو کہ وہ تنگ ہو کر اپنے علاقے کو چھوڑ دے۔جا کر کسی اور جگہ قیام کرے۔وہاں گھر کرایہ پر لے۔پھر اپنا ذاتی مکان کیوں نہ لے۔مگر یہ غلطی ہوگی۔ وہ اس لئے کہ اب پورا شہررہائش کے لحاظ سے ایک جیسا ہے۔ہمارے بھی بہت گھر تھے۔ پھر ہم نے بھی کافی گھر بدلے ہیں۔ایک جگہ پسند نہیں آئی تو دوسری جا پر مقیم ہو گئے۔ کیونکہ گھر والوں کا ایک گھر اور کرایہ والوں کے سو گھر ہوتے ہیں۔بجلی گیس کا مسئلہ اب ہر جگہ ہے۔ہم ایک علاقے میں اس لئے جا ٹھہرے تھے کہ وہاں گلی کے اندر ہی بجلی کا گرڈ سٹیشن تھا۔ کہا گیا کہ پورے شہر میں بجلی جائے گی مگر یہاں نہیں جائے گی۔ایسا ہی ہوا۔پہلا سال تو ہم نے خوب انجوائے کیا زندگی کے مزے لوٹے۔بارہ مہینے نہیں گزرے کہ اس علاقے میں بھی بجلی کی مصیبت نے آن گھیرا۔وہاں سوئی گیس بھی فراواں تھی۔ مزے ہی مزے تھے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہاں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ہوتی۔مگر کہاں۔وہ مزے جہان کے خاک ہوئے۔پھر گذرتے دنوں میں نہ توگیس رہی اور نہ ہی بجلی کی روانی رہی۔چلو ہم نے گزارا کرنا شروع کر دیا۔ مگر جب وہا ں مدتِ رہائش پوری ہوئی تو ہم رنگ روڈ کے کنارے دور کر کے ایک مقام پر اپنا گھر سجا بیٹھے۔یہاں تو پانی کی کمی کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔کیونکہ ہمارے پہنچتے ہی ہماری گلی ہی میں ایک ٹیوب ویل بن گیا۔ ایسا پریشر والا پانی کہ بغیر موٹر لگائے خود بخود تیسری چھت پر ٹینکی تک پہنچ جاتا۔ٹینکی بھر جاتی۔ہمیں نیچے پہلی منزل پروال بند کرنا پڑتا۔کیونکہ پانی بھر جانے کے بعد باہر گلی میں گرتا۔ پھر راہگیر اور ہمسایے ہمارے دروازے کھڑکھڑانا شروع کر دیتے۔ یہاں ہماری گیس دھڑلے سے جلتی او رروشن رہتی۔بجلی کے جانے کو اس ٹاؤن میں کوئی جانتا تک نہ تھا۔ جو مہمان شہرمیں اندرون کوہاٹی اور سرکی دروازے سے اٹھ کر آتے۔ہمارے چولھوں میں جلتی او رروشن گیس کو حیرانی سے دیکھتے۔حسرت کرتے کہ یار تھوڑی سی گیس ہمیں بھی پہنچا دو۔ ہمیں اپنے علاقے میں بہت تکلیف کاسامنا ہے۔نصیب نصیب کی بات ہے۔کسی کو کم کسی کو زیادہ اور کوئی محروم۔یہی زندگی ہے۔ہر شئے کا مل جانااور وافر ملنا ہر وقت نہیں ہوتا۔ ہم کون سے وہاں مستقل طور پر یہ سہولیا ت انجوائے کرتے رہے۔کچھ مدت کے بعد وہا ں بھی گیس کی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔چولھے ٹھنڈے پڑ چکے تھے۔پھر بجلی کا آنا جانا لگا رہا۔وہاں مدت پوری ہوئی تو ایک اور جگہ پہنچ گئے۔شہر کا روڑا ہو تو اسی طرح کبھی ایک جگہ کبھی دوسری جگہ خود بخود پہنچ جاتا ہے۔وہاں بھی گیس کی قلت نہ تھی کہ وہ مقام بھی شہر کے شروع ہوتے ہی جی ٹی روڈ کے پاس واقع تھا۔ وہاں گیس موجود تھی۔ اچھی خاصی تھی۔۔مگرآہستہ آہستہ یہاں گیس کی قلت ہونے لگی تاہم علاقے والوں دوڑ دھو پ کرکے وہاں کھلی ڈلی سی پائپ لائن  ڈلوا دی۔اب وہاں گیس کی فراوانی پھر سے ہونے لگی۔مگر کیا کہیے زمانہ گزرتا گیا۔ اب یہا ں پھرسے گیس غائب ہے۔چولھے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں اس گرمی میں گیس جانے کی کیا بات۔ مگر گرما میں چولھوں کی جو ٹھنڈ ک ہے وہ سردیوں کے موسم کی یاد دلاتی ہے۔مگر کیاہوا کہ اب وہاں چولہوں میں جو گیس آتی تھی وہ تو گئی خاک ہوگی۔ اب وہا ں سلینڈر جلتے ہیں تو جاکر کھانا پکتا ہے۔ یہ علاقہ سرسبز ہے او ردرختوں سے چھتا ہوا ہے۔مگر یہ ماحول جہاں فائدہ دیتا ہے وہاں اس کا نقصان یہ ہے کہ جب ذرا سی ہوا تیز چلے تو بہانے سے وہ بجلی لے جاتے ہیں۔اب پرسوں شام چار بجے کیسی آندھی چلی او رگردو باراں پھر دھول کا طوفان بلاخیز تھا۔ مگر بجلی فوراً گئی۔ اس علاقے سے متصل دوسرے گنجان آباد علاقوں میں بھی بجلی جوں غائب ہوئی تورات دو بجے لائٹ نے اپنا منہ دکھلایا۔ہر علاقے کی اپنی خوش قسمتی او ربد قسمتی ہے۔کہیں کیا سہولت او رکہیں کون سی تنگی محسوس ہوتی ہے۔