سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا؟

اگلے روز کے پی کے وزیر خزانہ تیمور جھگڑا نے صوبے کے واسطے نہایت ہی متوازن سالانہ بجٹ پیش کیا ہے جو زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر مرتب کیا گیا ہے، بجٹ کی بعض باتیں قابل تعریف ہیں مثلا ًفائر بریگیڈ کو ریسکیو کا حصہ بنانے کا فیصلہ‘ صوبے میں نئے میڈیکل کالجوں کا قیام‘ فوڈ کارڈ کا اجرا اور سرکاری ملازمین کیلئے نئے ھیلتھ کارڈ کو متعارف کرانا۔اسی طرح صوبے میں مختلف محکموں میں کام کرنے والے سرکاری اہلکاروں کی ملازمتوں کو ریگولرائز کر کے انہوں نے ان کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا کیاہے۔ اب تذکرہ کچھ دیگر امور کا ہوجائے،خدا لگتی یہ ہے کہ  سوشل میڈیا نے یہ مشکل بنادیا ہے کہ کوئی جان لے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا، یہاں پربھانت بھانت کی اس قدر بولیاں بولی جا رہی ہیں کہ  انہیں سن سن اور دیکھ دیکھ کر  انسانی ذہن ماؤف ہو جاتا ہے اور وہ یہ فیصلہ کر نہیں پاتا کہ کون  سچ کہہ رہا ہے اور کون جھوٹ۔ہمیں یہ لکھنے میں کوئی باک نہیں کہ انفارمشن ٹیکنالوجی کے انقلاب سے سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات کی بھر مار ہوئی ہے اس سے دگنی رفتار سے اس ملک کا آ دمی ذہنی خلفشار کا شکارہوا ہے۔ بغیر تصدیق اور ڈبل چیک کے جو خبریں مندرجہ بالا میڈیا کے ذریعے پھیلائی جا رہی ہیں ان میں سے کچھ کردار کشی کے زمرے میں آ تی ہیں اور ان کی تردید بھی اکثر دیر سے آتی ہے یا آ تی ہی نہیں اور ان سے اکثر اوقات ان افراد کو   ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے کہ جن کے بارے میں کوئی جھوٹی خبر پھیلائی گئی ہوتی ہے کسی نے سچ کہا ہے کہ سچ نے صبح ابھی بوٹ بھی پہنے نہیں ہوتے کہ جھوٹ آ دھے شہر کا چکر لگا کر آ چکا ہوتاہے۔ آزادی رائے کا جس قدر غلط استعمال  سوشل  میڈیا  پر ہورہا ہے وہ  شاذہی کسی اور جگہ ہوتا ہو اور اس کی ایک بڑی وجہ سزا ور جزا کا فقدان ہے۔اس حوالے سے جو قوانین موجود ہیں ان پر سختی سے عمل درآمد اور اگر حالات کے مطابق  نئے قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔بین الاقوامی منظر نامہ روس اور یوکرین جنگ کی وجہ سے ہلچل کا شکار تو تھا ہی ایسے میں چین اور امریکہ میں بھی کشیدگی بڑھنے لگی ہے جہاں چینی وزیر دفاع نے تائیوان کے معاملے پر امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے تائیوان کے معاملے پر چین کو خبردار کرنے کے ہفتوں بعد، بیجنگ نے اب اس بارے میں سخت اور شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تائیوان کی آزادی سے متعلق کسی بھی کوشش کو مکمل طور پر کچل دے گا۔گزشتہ روز چین کے وزیر دفاع جنرل وئی فنگھے نے امریکہ پر تائیوان کی آزادی کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ تائیوان کے معاملے میں اپنے وعدے کی خلاف ورزی اور چین کے اندورنی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔سنگاپور میں ہونے والے ایک دفاعی اجلاس شنگریلا ڈائیلاگ میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں یہ واضح کر دوں کہ اگر کسی نے تائیوان کو چین سے الگ کرنے کی کوشش کی تو ہم اس کے خلاف لڑائی سے نہیں ہچکچائیں گے۔ ہم ہر قیمت پر اور آخری حد تک اس کے خلاف جنگ کریں گے اور چین کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ان کا یہ بیان امریکی صدر جو بائیڈن کے حالیہ بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے چین کو یہ پیغام دیا تھا کہ چین تائیوان کی سرحدی حدود کے قریب اپنے جنگی جہاز اُڑا کر خطرے سے کھیل رہا ہے۔ انھوں نے اس عزم کو دہرایا تھا کہ اگر تائیوان پر حملہ کیا گیا تو وہ اس عسکری طور پر اس کا دفاع کریں گے۔امریکہ اور چین کے درمیان تائیوان کو لے کر روایتی بیان بازی میں حالیہ شدت اس وقت آئی جب چین نے تائیوان کی فضائی حدود میں اپنے جنگی جہاز بھیجنے میں اضافہ کیا اور گذشتہ ماہ ہی چین نے اپنے جنگی جہازوں کی ایک بڑی فارمیشن تائیوان کی فضائی حدود میں بھیجی جبکہ اس کے ردعمل میں امریکہ نے تائیوان کے پانیوں میں اپنے جنگی بحری جہاز اتار دئیے ہیں۔اس وقت عالمی منظر نامے پر ایک بڑا خطرہ یہ ہے اگر چین تائیوان پر حملہ کر دے تو کہ اس وقت جنگ چھڑ سکتی ہے۔

بیجنگ نے ماضی میں یہ کہا تھا کہ اگر ضروری ہوا تو وہ طاقت کے استعمال سے اس جزیرہ کو دوبارہ حاصل کر سکتا ہے لیکن بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس وقت ایسا کچھ نہیں ہونے جا رہا۔اس بات پر بحث ہوتی رہی ہے کہ آیا چین کے پاس حملے کے صورت میں کامیاب ہونے کی فوجی صلاحیت موجود ہے،جبکہ تائیوان اپنے فضائی اور سمندری دفاع کو کافی حد تک بڑھا رہا ہے۔لیکن بہت سے ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ چین کو اس بات کا ادراک ہے کہ ایسا کوئی بھی قدم نہ صرف اس کیلئے بلکہ باقی دنیا کیلئے بھی بہت تباہ کن اور مہنگا ثابت ہو گا۔چین کا تائیوان کے متعلق ایک مستقل موقف رہا ہے کہ وہ تائیوان کے ساتھ پرامن طریقے سے دوبارہ الحاق کرنا چاہتا ہے اور ایسا ہی کچھ چینی وزیر دفاع جنرل وائی نے  اپنے بیان میں کہا تھا اور ان کے بیان کے مطابق وہ صرف اس وقت ردعمل دیں گے اگر انھیں ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا یا اُکسایا گیا۔تجزیہ کاروں کے مطابق چین کو اُکسانے کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اگر تائیوان باضابطہ طور پر اپنی آزادی کا اعلان کر دے لیکن تائیوان کی صدر تاسائی ون نے ہمیشہ اس سے اجتناب کیا ہے۔ حتی کہ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ تائیوان ایک خودمختار ملک ہے لیکن انھوں نے اس کی آزادی کا باضابطہ اعلان کبھی نہیں کیا۔بیشتر تائیوانی شہری ملک کی موجودہ صورتحال کو برقرار رکھنے کے موقف کی حمایت کرتے ہیں تاہم بعض شہری ایسے بھی ہیں جو چین سے الگ ہوکر تائیوان کی مکمل آزادی کی بات  اور مطالبہ کرتے ہیں۔