حصہ بقدر جثہ

قرب و جوار میں سستے داموں اشیا اور اجناس موجود ہونے کے باوجود دور دراز ممالک سے درآمدات پر انحصار کیا جاتا ہے جبکہ بچت اور جغرافیائی محل وقوع سے فائدہ اُٹھا کر زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ بڑی حد تک کم کرنا ممکن ہے‘ پاکستان شدید مالی بحران سے گزر رہا ہے جس کا عکس آئندہ مالی سال (دوہزاربائیس تیئس) کیلئے وفاقی اور صوبائی آمدنی و اخراجات کے پیش کردہ میزانیوں سے عیاں ہے۔ یہ صورتحال کسی ایک سیاسی جماعت کیلئے بلکہ جملہ سیاسی جماعتوں کا امتحان ہے اور یہ صورتحال متقاضی بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے مثالی تعاون و یک جہتی کا مظاہرہ کریں تاکہ درپیش مالیاتی مسائل کا حل نکالا جا سکے اور یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ مسئلہ قومی آمدنی کا کم ہونا نہیں ہے کیونکہ وسائل موجود ہیں جنہیں ترقی دے کر قومی آمدنی بڑھائی جا سکتی ہے لیکن حکومت کے اخراجات اور سرکاری اداروں کا خسارہ زیادہ ہونا ایک ایسی مصیبت ہے جس کا علاج کئے بغیر اقتصادی مسائل حل ہونا ممکن نہیں ہیں۔ سیاسی جماعتیں جس قدر جلد اِس حقیقت کا ادراک کر لیں گی اور سمجھ لیں گی کہ انہیں مل جل کر ملک کو موجودہ مصیبت سے نکلنے میں مدد کرنی چاہئے اُتنا ہی بہتر ہوگا‘ پاکستان کو قرض اور امداد دینے والے ممالک بھی سیاسی استحکام کی ضرورت پر اشاروں کنائیوں میں زور دے رہے ہیں اور اِس صورتحال میں سیاسی عدم استحکام ملک کی داخلی و خارجی مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے۔

ملک کی معاشی بقا کی خاطر باہمی افہام و تفہیم اور حمایت کا اِس سے زیادہ موزوں وقت کوئی دوسرا نہیں ہے۔ اس اہم موڑ پر حکومت اور حزب اختلاف کو کم از کم کچھ دیر ہی کیلئے سہی لیکن اپنے اختلافات کے حوالے سے مؤقف میں نرمی پیدا کرنی چاہئے۔ جہاں تک ”سیاسی پوائنٹ سکورنگ“ کا تعلق ہے تو ایک مرتبہ معاشی بحران کی شدت کم ہو جائے تو اِس ’پسندیدہ سیاسی مشغلے‘ کیلئے کافی سے زیادہ وقت دستیاب ہوگا لیکن فی الحال ملک کو معاشی بحران کا سامنا ہے جس کا عکس بڑھتی ہوئی مہنگائی کی صورت دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں تک عوام کی بات ہے تو مشکل کی اِس گھڑی میں اگر وہ اگر چہ حکومتی اقدامات کے حوالے سے مطمئن اور پر امید ہیں تاہم انہیں مہنگائی کا بوجھ آخر کب تک برداشت کرنا پڑے گا‘ دوسری طرف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کو حاصل مراعات میں اضافہ کر دیا گیا ہے جو اچھا قدم ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ ضرورت کم خرچ حکومتی انتظامات کی بھی ہے کہ عوام خود کو معاشی بحران کا بوجھ برداشت کرتے ہوئے تنہا محسوس نہ کریں اور اس مہنگائی کا بوجھ ”حصہ بقدرِ جثہ“ اُس طبقے پر ڈالا جائے جو مراعات یافتہ ہے۔

اب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو باجود خطیر آمدن کے حسب آمدنی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ملک کو معاشی عدم استحکام کی موجودہ صورتحال سے نکالنے کیلئے محض عوام کی قربانیاں کسی کام نہیں آئیں گی کیونکہ عوام کو حکومت کی طرف سے ریلیف کے نام پر جو کچھ دیا جاتا ہے وہ اشرافیہ کہلانے والے طبقات کو دی جانے والی مراعات کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ مشکل حالات میں سخت فیصلے کرنے ضروری ہیں تو ان کا بوجھ اُس طبقے پر ڈالا جانا چاہئے جو زیادہ فائدے سمیٹ رہا ہے اور یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے۔ معیشت کو بحال کرنے کیلئے ٹھوس عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ طے ہے کہ اگر حکومت ایسے عملی اقدامات کرنے کے قابل ہو جاتی ہے تو پھر عوام کا جمہوری اداروں اور نظام پر اعتماد بھی بحال ہوگا اور وہ آئندہ عام انتخابات میں اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کو خسارہ نہیں ہوگا۔