ایک طرف دنیا غربت کے شکنجے میں پھنستی جار ہی ہے اور دوسری طرف عالمی طاقتیں ہیں کہ جوہری ہتھیاروں پر بھاری بھرکم اخراجات میں مصروف ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بڑی طاقتوں کے اٹیمی اخراجات میں اضافے کے حوالے سے امریکہ سر فہرست ہے اور چین دوسرے نمبر پر اس کی بڑی وجہ سپر پاورز امریکہ اور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی ہے۔ماضی کے مقابلے میں اٹیمی ہتھیاروں کی تیاری میں 9 فیصد اضافہ ہوا ہے۔2021 میں اخراجات 80ارب 40 کروڑ ڈالرز رہے۔44 ارب ڈالرز کے ساتھ امریکہ اخراجات میں سر فہرست ہے۔ چین 11 ارب70 کروڑ ڈالرز کے ساتھ اخراجات میں دوسرے نمبر پر ہے اور اب آ تے ہیں ایک دوسرے بڑے اہم قومی معاملے کی طرف اور اس کا تعلق ہے۔
ماحولیات کے تحفظ کے ساتھ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو ماحولیاتی تبدیلی سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ہمارے شہر کنکریٹ کے جنگلوں میں تبدیل ہوئے ہیں اور ماحولیات کے حوالے سے موثر اقدامات نہ کئے گئے یعنی درختوں اور سبزے میں اضافہ نہیں کیا گیا تو اس سے ماحولیات کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوگا۔ان دنوں پوری دنیا موسمیاتی تبدیلی کی لپیٹ میں ہے اور پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات نمایاں ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافہ اور خشک سالی بڑھتی جا رہی ہے اور موسموں کی شدت کے نئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں اور اگر ان پر قابو نہ پایا گیا تو ان کے بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔اس وقت گرمی کی شدت جس حد کو چھونے لگی ہے اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔ بے وقت کی بارشوں اور تیز آندھیوں کا سلسلہ بھی موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ کئی سالوں سے وطن عزیز میں جنگلات کی کٹائی اورزرعی زمین کی کمی،پٹرولیم مصنوعات کے بے دریغ استعمال اور بڑے شہروں میں گاڑیوں کی تعداد میں ہوشربا اضافے اور ان سے نکلنے والے دھویں سے ماحولیاتی آ لودگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ وطن عزیز کا ایک بڑا حصہ پہاڑی ہے جہاں بڑے بڑے گلیشئرہیں درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے وہ پگھل رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے رقبے میں نمایاں کمی واقع ہو چکی ہے۔اس لئے ضروری ہوگیا ہے کہ حالات کو مزید خراب ہونے سے روکنے کیلئے ہمیں آ ٹو موبائل انڈسٹری کی پالیسی میں تبدیلی کرنا ہو گی اور الیکٹرک گاڑیاں بنانے اور امپورٹ کرنے والی کمپنیوں کو مراعات فراہم کرنا ہوں گی۔ شجر کاری کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دیناہو گی۔
اس طرح یہ بھی ضروری ہے کہ جس مقام پر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کیلئے پلانٹ نصب کیے جائیں تو وہاں یہ پابندی عائد کی جائے کہ پلانٹ کے اطراف میں بڑی تعداد میں شجر کاری کو یقینی بنایا جائے تاکہ درخت کار بن ڈائی اکسائڈ کو جذب کر سکیں۔حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہر فردماحول کے تحفظ کے حوالے سے اپنا انفرادی کردار ادا نہیں کریگا محض حکومت کی طرف سے منصوبوں اور اعلانات سے کچھ نہیں ہوتا۔ اپنے ارد گرد کے ماحول کو زندگی دوست بنانے میں ہر کوئی اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ درخت لگا سکتا ہے، گندگی اور کچرے کو پھیلانے سے روک سکتا ہے۔