جسمانی مشقت بھرے کھیل کی ایک قسم ’مکسڈ مارشل آرٹ (MMA)‘ کہلاتی ہے جو اپنے دفاع کیلئے سیکھے جانے والے ہنر کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ ’مکسڈ مارشل آرٹ‘ درحقیقت ’مارشل آرٹ‘ ہی کے اصولوں پر کھیلا جاتا ہے تاہم یہ مختلف طریقوں سے کھیلے جانے والے مارشل آرٹس کا مجموعہ ہے تاہم اِس کے قواعد و ضوابط مارشل آرٹس کی طرح زیادہ سخت نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اِس کھیل کی عالمی سطح پر مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کھیل کے اِس اسلوب کی ایجاد 1920ء میں برازیل سے ہوئی جس کے بعد یہ مقبولیت حاصل کرتا رہا اور اب عالمی سطح پر اِس کھیل کے مقابلے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ’ایم ایم اے‘ کی تربیت کے خاطرخواہ معیاری مواقع موجود نہیں البتہ اِس کھیل کو اپنے طور پر سیکھنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے تاہم قومی سطح پر اِسے منظم انداز میں متعارف نہیں کرایا گیا ہے۔شمالی علاقہ جات کی جنت نظیر وادیوں سے تعلق رکھنے والی ’انیتا کریم‘ نے ’مکسڈ مارشل آرٹ‘ میں اپنا نام پیدا کیا ہے اور اُنہیں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں شہرت ملی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر تربیتی مواقع فراہم کئے جائیں تو پاکستان میں ٹیلنٹ (اہلیت) کی کوئی کمی نہیں ہے تاہم ایسے بہت سے کھیل ہیں جو تاحال پاکستان میں متعارف نہیں ہوئے اور اندھیرے میں پڑے ہیں۔
انیتا کا تعلق ہنزہ سے ہے اور وہ ایک نہایت ہی مشکل کھیل کی چیمپئن ہیں جس پر پاکستان میں بمشکل توجہ دی جاتی ہے کیونکہ دیگر کھیلوں کی طرح یہ بھی مشہور نہیں جیسا کہ گردوپیش میں دیکھیں کہ ہر چھوٹا بڑا بس کرکٹ ہی کھیلنا چاہتا ہے! لیکن انیتا کی حالیہ کامیابیاں اس کی صلاحیتوں اور مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مخلوط مارشل آرٹ فائٹر نے پاکستان کی جانب سے کھیلتے ہوئے آسٹریلوی حریف کو مقابلے کے تینوں مراحل (راؤنڈز) میں شکست دے کر ’لمپینی سٹیڈیم بینکاک‘ میں فیئرٹیکس فائیٹ پروموشن کی جانب سے مقابلہ جیتا اور ایسی پہلی پاکستانی لڑاکا خاتون بن گئی ہیں جنہوں نے ’ایم ایم اے‘ عالمی مقابلہ اپنے نام کیا ہے۔ سال 2019ء میں انہوں نے انڈونیشیا میں منعقدہ ون واریئر سیریز (او ڈبلیو ایس) نامی مقابلہ بھی جیتا تھا تاہم یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ دوہزاراُنیس میں ان کی جیت کے بعد لاہور ائرپورٹ پر بینٹمویٹ کیٹیگری فائٹر کا استقبال صرف چند لوگوں ہی نے کیا جن میں بنیادی طور پر اُن کے عزیزواقارب یا ہنزہ سے تعلق رکھنے والے مقامی و دیگر مداح شامل تھے۔کھیل کی دنیا میں پاکستان کو سبھی کھیلوں کی سرپرستی کرنی چاہئے۔
ہمارے فیصلہ سازوں نے جس انداز میں صرف کرکٹ کو سر پر اُٹھا رکھا ہے تو یہ ترجیح کافی نہیں اور ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ کرکٹ کے ساتھ دیگر تمام کھیلوں کیلئے بھی نوجوانوں کی صلاحیتوں کو نکھارا جائے۔ انیتا کریم نے ’مکسڈ مارشل آرٹ‘ میں نام کمایا ہے جو کہ درحقیقت مردوں کا کھیل ہے اور اِسے زیادہ تر مرد کھیلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انیتا کریم نے جو کچھ حاصل کیا وہ غیرمعمولی ہے اور اُس اعزاز سے زیادہ بڑا ہے جو اُنہوں نے ایک عالمی مقابلے میں حاصل کیا ہے۔ مخلوط مارشل آرٹ میں اس طرح کی مہارت‘ جو روایتی طور پر مشکل کھیل ہے کو تسلیم کرنے اور سراہنے کی ضرورت ہے اور دیگر خواتین اور لڑکیوں کو پیشہ ورانہ طور پر اس کھیل کو اپنانے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ یہ حقیقت کہ انیتا کریم کا تعلق ہنزہ‘ گلگت بلتستان سے ہے‘ ان کی کامیابیوں کو مزید قابل ستائش بناتا ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ خطہ روایتی طور پر نظر انداز رہا ہے جو ملک کے نام نہاد ترجیحاتی مقامات سے الگ ہے۔ ذرائع ابلاغ سے بات چیت کے دوران انیتا نے اُن سبھی باتوں کو یاد کیا جس میں اُن کے ’ایم ایم اے‘ کھیلنے پر اعتراضات ہوئے۔ حتیٰ کہ کھیل کے لباس (ڈریس کٹ) کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ کھیلوں میں حصہ لینے والی خواتین کو گھر کے اندر اور باہر مختلف قسم کے دباؤ سے گزرنا پڑتا ہے اور بالخصوص معاشرے میں لباس سے متعلق پائی جانے والی حساسیت اکثر مباحثوں کا باعث بنتی ہے تاہم تنقید سے بے خوف انیتا آگے بڑھتی رہی۔
پچیس سالہ انیتا ’ایم ایم اے‘ کے اعزاز میں سرکاری عشایئے کا اہتمام کیا گیا لیکن چند ایک انٹرویوز اور ایک دو عشائیوں سے زیادہ اُس کی پذیرائی ہونی چاہئے۔ پاکستان کو سبھی کھیلوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے اور خاص طور پر دیہی و نظرانداز علاقوں میں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے کھیل سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا اسلوب نہیں ہوسکتا۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستان میں خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات میں پریشان کن حد تک اضافہ ہو رہا ہے کسی ایک کھیل میں کسی خاتون کا اُبھر کر سامنا آنا غیرمعمولی ہے اور اِس کی ہر سطح پر حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ ملک میں مکسڈ مارشل آرٹ اپنی حقیقی پہچان سے محروم ہے۔ ہمارے نوجوان کھیلوں کی بجائے موبائل فونز اور کمپیوٹر آلات سے زیادہ شغف رکھتے ہیں اور یہ منفی رجحان قومی سطح پر کھیلوں کے فروغ کے لئے اقدامات کی صورت تبدیلی چاہتا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ حکومتی فیصلہ ساز روایتی طور پر مقبول ’کرکٹ‘ کے جنون سے بالاتر ہو کر دیگر کھیلوں بالخصوص ’مکسڈ مارشل آرٹ‘ کے بارے میں بھی سوچیں گے اور پاکستان میں اِس ابھرتے ہوئے کھیل کے فروغ کیلئے نگران و منتظم ادارہ (ریگولیٹری باڈی) قائم کی جائے گی جو ’مکسڈ مارشل آرٹ‘ سمیت جسمانی کسرت کے دیگر کھیلوں میں دلچسپی رکھنے والے نوجوانوں (مرد اور خواتین) کو اس کھیل آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرے گی۔ کھیل کود کے مواقع کسی معاشرے کو صحت مند بنیادوں پر کھڑا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔