آنے والے کل کے سورج

ارضِ وطن میں ایک کروڑ بچے ہیں جو دیہاڑی پر کام کرتے ہیں۔ وہ اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتے ہیں۔مانا کہ بچوں کو سنبھالنا ان کو شرارتوں سے روکنا از حد مشکل ہے مگر کیا کریں بچے بھی تو ہمارے معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔جس گھر میں بڑے نہ ہوں یا بچوں کی رکھوالی کرنے کو صرف مائیں اور بہنیں ہوں وہاں بچوں پر قابو کرنا مشکل ہوتاہے۔وہاں اس ماحول میں بچوں کو کسی نہ کسی کام پرلگا دیا جاتا ہے تاکہ بچے شرارتوں سے باز رہ کر جب پڑھائی نہیں کرتے تو گھر میں فالتو اودھم مچانے سے بہتر ہے کہ کوئی ہنر سیکھ لیں۔ کہیں کسی ماحول میں غربت گھر کی دیواروں پر پڑی سو رہی ہوتی ہے وہ گاؤں سے نکل کر پیدل جاتے ہیں اور کہیں چنگ چی میں سوار ہو کر پھاٹک کے پاس اترکر آگے قصہ خوانی بازار میں پیدل پہنچ کر چیزیں بیچتے ہیں۔اس وقت پاکستان میں ایک کروڑ بچے محنت مزدوری کر کے گھروالوں کا پیٹ پالتے ہیں۔میں نے کئی بچوں سے انٹرویو کیا ہے۔ معلوم کیا کہ ان کا اصل مسئلہ کیا ہے۔
 میں نے جانا کہ ان کے گھرمیں باپ موجود نہیں ہے۔کوئی والد معذور ہے اور گھر میں پڑا ہے۔ پھر کوئی والد فالج زدہ بیمار ہے۔میں بائیک پرجب علاقے کا موڑکاٹتا ہوں تو راستے میں کوئی نہ کوئی بچہ شام کے بعد سواریوں والی سوزوکی کے انتظار میں کھڑا ہوتا ہے۔یا تو وہ خود ہاتھ دیتے ہیں یا میں ان معصوم بچوں میں سے کسی نہ کسی کو موٹر سائیکل پر اٹھالیتا ہوں۔ میل دو میل کے فاصلے پراس کے گھرتک پہنچا دیتا ہوں۔ راستے میں بہانے بہانے سے سوال جواب کا سیشن ہوتا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ ان کے گھر میں مجبوری کا عالم ہے اور وہ کمانے کیلئے باہر بھیجے گئے ہیں‘کوئی ڈیڑھ سو اور کوئی دو سو لے کر آتا ہے۔پھر بعض بچے تو پریشاں حال کھڑے ہوتے ہیں ان کادم سوکھا ہوتا ہے۔
پوچھتا ہوں ہوا کیا ہے۔اتنے گھبرائے ہوئے ہو۔ وہ تو کرایہ بھی بچانے کو سوزوکی میں سوار نہیں ہوتے او رموٹر سائیکل والوں کو ہاتھ دیتے ہیں۔ایک سے پوچھا تو اس نے کہا میں نے آج کمائی نہیں کی۔میں نے اس کے بعد زیادہ سوال جواب نہیں کئے اور جیب سے سو کانوٹ نکال کر اس کودیا اوراس کے گھر تک چھوڑ دیا۔کہا کہ ماں کو مت کہنا کہ کسی نے راستے میں دیا ہے۔ بتلا دو میں نے آج اتنے کمائے ہیں۔پوچھا جو سامان تم بیچتے ہو وہ تو تمھارے پاس موجود نہیں۔جواب تھا گھر آنے سے پہلے بازار کے دکاندار کے پاس رکھوا دیتے ہیں۔اس قسم کے ہزاروں لاکھوں بچے کوئی نہ کوئی کام کرتے ہیں۔
 دو ایک بچے روز ملتے تھے۔کچھ دنوں بعد معلوم ہوا  وہ دوسری جگہ کرایہ پر چلے گئے ہیں۔دل خفا بھی ہوا کہ اپنا یارانہ ٹوٹ گیا تھا۔بچو ں کی معصومیت اور پیاری پیاری باتوں کا تو کوئی مول نہیں۔پھر میں ایک چوک سے گذرا تو مجھے کسی نے آواز دی۔معلوم ہوا کہ وہی بچہ ہے جو ہمارے علاقے سے گھر چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔سڑک کراس کر کے دوڑ کر میرے پاس آیا۔میں بہت خوش ہوا میں نے کہاترکاری بیچنے والے کے پا س سالن لینے آئے ہو کیا۔ وہ بولا نہیں میں تو یہاں کام کرتا ہوں۔میں سمجھ گیا۔ میں نے اس کو حسبِ معمول جیب سے پچاس کا نوٹ نکال کر دیا۔پھر ایک بچہ راستے میں ملا وہ بھی عرصہ دراز سے علاقے میں موجود نہ تھا۔میں نے بائیک روک کر پوچھا تم کہاں ہوتے ہو۔کہنے لگا میں تو یہیں ہو ں۔میں اگلے چوک میں شربت بیچتا ہوں۔