بین الاقوامی منظر نامہ اور درپیش چیلنجز

دنیا بھر میں غذائی قلت اور پینے کے صاف پانی سے بڑی آبادی کی محرومی عالمی قائدین کیلئے چیلنج بنی ہوئی ہے۔عالمی ادارے اس حوالے سے پہلے ہی وارننگ جاری کر چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں وسائل پر بڑھتی ہوئی آبادی کا بوجھ مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ وطن عزیز بھی اس کا شکار ہے کیونکہ پاکستان  دنیا میں آ بادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے اور وسائل  و آبادی میں عدم توازن کی وجہ سے اس ملک کے باسیوں کی ایک بڑی تعداد کو روزگار تعلیم  صحت  اور پانی کی بنیادی اور معیاری سہولیات میسر نہیں  ہیں۔ عالمی ادارہ خوراک کی یہ رپورٹ پریشان کن ہے کہ اگلے سال کئی ممالک بشمول پاکستان قحط سالی کا شکارہو سکتے ہیں اگر چہ اس کی وجوہات آبادی سے ہٹ کر کئی اور بھی ہیں جن میں بارشوں کا کم ہونا اور زرعی زمینوں کی پیداوار میں کمی جیسے عوامل بھی شامل ہیں۔ اب کچھ تذکرہ ہو جائے دیگر امور کا ، مغربی ممالک نے اپنے ہاں تو کرپشن کے حوالے سے سخت قوانین بنائے ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی سختی سے ہورہا ہے تاہم دنیا بھر سے کوئی بھی سرمایہ لے کر اگر ان ممالک کے بینکوں میں رکھے تو یہ نہیں پوچھتے کہ یہ سرمایہ کس طرح کمایا گیا ہے۔  دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں کہ جہاں اپ  بے دھڑک اپنا سرمایہ لے جا کر وہاں پراپرٹی خرید سکتے ہیں وہاں اس مال سے تجارت کر سکتے ہیں اور آپ سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ آپ نے یہ پیسہ کیسے کمایا اور کیا اس پر جو قانونی ٹیکس لگتا ہے وہ آپ نے ادا بھی کیا ہے یا نہیں، اس کا خمیازہ تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک بھگت رہے ہیں۔جہاں سرمایہ ان ممالک کی طرف منتقل ہوتا ہے جبکہ ان ترقی پذیر ممالک میں سے زیادہ تر بین الاقوامی مالیاتی اداروں  کے قرضوں پر اپنی معیشت کو پروان چڑھانے میں مصروف ہیں۔

دوسر ی طرف بین الاقوامی منظر نامے پر اہم خبر یہ ہے کہ افغانستان کیلئے روس کے نمائندہ خصوصی  نے طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے اور افغانستان کیلئے اناج بھی مختص کر دیاہے اس بات کا قوی امکان ہے کہ ماسکو طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم کر سکتا ہے۔ یاد رھے کہ اب تک کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کو باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیاہے۔ روس نے اس وقت امریکہ کی دم پر پاؤں رکھا ہوا ہے، کیونکہ اس نے یوکرین پر جو حملہ کیا ہے وہ اصل میں امریکہ کے مفادات پر حملہ ہے۔ جس نے یوکرین کو روس کے پڑوس میں امریکہ اڈے میں تبدیل کرنے کی پالیسی اپنا رکھی تھی اور روس نے اپن سلامتی کو لاحق خطرات کے تناظر میں یوکرین پر حملہ کر دیا۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ  چین نے بھی روس کے اس موقف کی حمایت کی ہے جس پر امریکہ سیخ پا ہے۔تازہ ترین پیش رفت کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ فون کا ل کے دوران ماسکو کی خود مختاری اور سلامتی کیلئے بیجنگ کی حمایت کا یقین دلایا۔ گزشتہ روز ہونے والی اس بات چیت کے دوران صد ر شی جن پنگ نے کہا کہ تمام فریقین کو یوکرین بحران کے مناسب حل کیلئے ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔انہو ں نے کہا کہ چین بنیادی مفادات، خود مختاری اور سلامتی جیسے خدشات سے متعلق امور پر روس کو باہمی تعاون کی پیش کش جاری رکھے گا۔24فروری کو یوکرین پر روس کی فوجی کاروائی کے بعد سے شی جن پنگ اور پوٹن کے درمیان یہ دوسری بات چیت تھی۔

خیال رہے کہ چین نے یوکرین پر روس کی فوجی کاروائی کی اب تک مذمت نہیں کی ہے۔اس دوران کریملن سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماوں نے مغرب کی غیر قانونی پابندیوں کی پالیسی کی وجہ سے عالمی معیشت کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے توانائی، مالیاتی، صنعتی، ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے پر بھی اتفاق کیا۔دوسری طرف روس کی جانب سے مشرقی ڈونباس علاقے پر حملے کے درمیان امریکہ نے یوکرین کو مزید ایک ارب ڈالر کی فوجی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔وائٹ ہاوس کے ترجمان جان کربی نے بتایا کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کے درمیان فون پر بات چیت ہوئی جس کے بعد صدر بائیڈن نے یوکرین کیلئے مزید امداد کا اعلان کیا۔امریکہ کی جانب سے مزید ایک ارب ڈالر کی فوجی امداد کے تحت یوکرین کو 155ملی میٹر ہوائٹزر اور ان کے لیے 30 ہزار روانڈ، گولہ بارود، زمینی ہارپون اینٹی شپ میزائل سسٹم اور راکٹ آرٹیلری سسٹم کیلئے اضافی راکٹ دئیے جائیں گے۔

اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ روس امریکہ اور چین کے درمیان اس وقت عالمی منظرنامے پر جو مقابلہ جاری ہے اس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہونے لگے ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب یوکرائن اور روس تنازعہ عالمی جنگ کی صورت اختیار کر جائے کیونکہ گزشتہ روز چین اور امریکہ کے درمیان بھی تائیوان کے تنازعے پر بھی سخت جملوں پر تبادلہ ہوا ہے اورچین نے واضح کیا ہے کہ وہ تائیوان کے مسئلے پر جنگ کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا ایک طرف امریکہ نے روس کے ساتھ یوکرائن کے مسئلے پر آنکھوں میں آنکھیں ڈالی ہوئی ہے تو دوسری طرف تائیوان کے معاملے پر چین کیساتھ بھی کشیدگی کی طرف جا رہا ہے لگتا ہے کہ افغانستان سے نکلنے کے بعد اب امریکہ بحرہ الکاہل کے خطے اور یورپ میں دلچسپی لینے لگا ہے اور وہاں پر اپنے مفادات کے تحفظ میں مصروف ہے جس کے لئے اس سے آسٹریلیا‘ بھارت اور نیوزی لینڈ سمیت کئی ممالک کے ساتھ معاہدے کئے ہیں تاکہ ان علاقوں میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا مقابلہ کیا جا سکے۔