نئے ما لی سال کا وفاقی بجٹ آیا تو اس پر مختلف تبصرے اور تجزیے شروع ہوگئے ہیں قو می اسمبلی میں حزب اختلاف کی جگہ خا لی ہے اس لئے بجٹ مو جود ہ شکل میں مطا لبات زر اور فنا نس بل کے ساتھ آسا نی سے منظور ہو جا ئے گا کوئی بحث و تمحیص یا رکا وٹ نہیں ہو گی لیکن اصل مسئلہ ووٹر کا ہے کیا ووٹر کے لئے اس بجٹ کو منظور کرنا آسان ہوگا یا نہیں؟ پریس کلب کے اندر ایک بڑی مجلس میں یہ سوال داغا گیا تو جواب کی جگہ اُدھر سے سوال آگیا کہنے والے نے پو چھا ووٹر سے کون مراد ہے با یو میٹرک ووٹ والا ووٹر یا عام ووٹر؟ ہم نے کہا الیکٹر انک ووٹنگ مشین کا بل منسوخ ہو گیا ہے اب تو عام ووٹ ہی چلے گا سوال کرنے والے نے کہا عام ووٹ میں ووٹر مہر کا استعما ل کر کے ہاتھ کی پا نچ انگلیوں سے ووٹ دیتا ہے ای وی ایم کے سسٹم میں ووٹر مشین پر انگو ٹھا رکھ دیتا ہے اور ووٹ شمار ہو جا تا ہے بات کر نے والے نے کہا مسئلہ طریقے کا نہیں مسئلہ قانون کا ہے ووٹ کے وقت قانون کو تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے جس طرح پہلے قانون کی جگہ ای وی ایم کا قانون لا یا گیا تھا اس طرح ای وی ایم کی جگہ دوبارہ پرانا قانون لا یا گیا اس طرح پھر نیا قانون لا یا جا سکتا ہے.
قانون اور طریقہ کار کی بحث کو چھوڑ و پہلے یہ بتاؤ کہ مو جو دہ بجٹ ووٹر کے لئے قابل قبول ہے یا نہیں؟ ہم نے کہا ”آپ کیا بات کر تے ہو َ“ جس طرح ووٹر اور ووٹ کا قانون ہر دوسرے مہینے تبدیل ہو جا تا ہے اس طرح ہمارا بجٹ کاغذوں میں پرانے سسٹم کے تحت سالا نہ بجٹ کہلاتا ہے مگر اب دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے اور بیرونی اثرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔اس لئے کسی بھی وقت ڈالر‘تیل‘ گیس اور بجلی کے نئے ریٹ آ سکتے ہیں نئے ریٹوں کے ساتھ تخمینہ بدل جا تا ہے، میزا نیہ بدل جا تا ہے اور اہداف بدل جا تے ہیں آپ کسی ما ہ بھی اس بجٹ کو آخری بجٹ نہیں کہہ سکتے یا دش بخیر! پشاور کی رورل اکیڈ یمی میں دیہی تر قی کے سپیشلسٹ جا وید صاحب ہوا کر تے وہ لیکچر کے لئے آتے اور تر قیا تی سکیموں کی تر جیحا ت پر لیکچر دیتے تو اس میں بہت سے مقاما ت پر سوال اٹھائے جا تے مثلا ً پینے کے پا نی کا منصو بہ لا نا ہے تو اس میں صنفی مساوات کی کیا ضرورت ہے؟ مثلاً گاؤں کیلئے پل یا سڑک بنا نی ہے تو صنفی مساوات پر غور کرنے کے کیا معنی ہو نگے؟
جا وید مسکرا تے اور کہتے کہ صنفی مساوات کے بارے میں ’مغربی ممالک بہت حساس واقع ہوئے ہیں وہ جس منصو بے کے لئے پیسہ دیتے ہیں اس میں صنفی مساوات کا ذکر ڈھونڈ تے ہیں اگر صنفی مساوات کا نا م نہ لیا جا ئے تومغربی ممالک ایک پائی نہیں دیتے۔ بجٹ کے حوالے سے یہ معاملہ انٹر نیشنل ما نیٹری فنڈ (IMF) والوں کے ساتھ ہے۔ ٹیکس بڑھانے اور سبسڈی واپس لینے کے وعدے کے بغیر وہ کسی کو پیسہ نہیں دیتے۔ پریس کلب کی مجلس میں گفتگو کا رخ پھر ووٹر کے بجٹ کی طرف موڑ دیا گیا تو ایک سینئر صحا فی نے کہا ابھی ووٹ کا سیزن ہی معلوم نہیں، ووٹ کس حال میں ہو گا؟ ووٹ کون کرائے گا؟ اسکا اعلان ہو جا ئے تب ووٹر کے سو چنے کی باری آئیگی اب تو ووٹر کچھ نہیں جانتا کہ آگے کیا رکھا ہے؟ آخریہ طے پا یا کہ اس وقت نہ بجٹ حرف آخر ہے نہ ووٹر کی رائے۔ تاہم مستقبل کے حوالے سے رائے دینے اور تبصرہ کرنے سے کوئی کسی کو کیسے روک سکتا ہے۔ اس لئے جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق بجٹ کے حوالے سے بھی طرح طرح کی آراء سامنے آرہی ہیں اور یہ حال ووٹر وں کی رائے کے حوالے سے بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ ابھی تو بہت وقت پڑا ہے اور رائے بدلنے میں کوئی وقت تھوڑا ہی لگتا ہے۔