کہانی میں نیا موڑ

انہوں نے پہلے گھر بنایا۔کسی نے کہا اس گھر میں گاڑی کھڑی کر نے کو ایک گیرج بھی ہوناچاہئے۔ انھوں نے ایک لمحے سوچا کیا پتا واقعی کل کو قدرت مہربان ہوجائے۔یہ سوچ کر انھوں نے گھرکی بیٹھک کو دوحصوں میں تقسیم کردیا۔ایک میں ڈرائنگ روم رہنے دیا اور دوسرے کو کارپورچ کی شکل دے دی۔جب ایک آدھ سال گزرا تو اس کو گاڑی کا خالی گیراج بہت بھدا اور بد نما سا معلوم ہونے لگا۔ شاید یہ وجہ ہو کہ ا س میں گاڑی نہ تھی۔پھر یہ بھی کہ یہ جگہ گھر کے کاٹھ کباڑ کیلئے مخصوص کر دی گئی تھی۔دنیا جہان کا سامان جو گھرمیں فالتو ہو جاتا یہاں لا کرڈھیر کر دیا جاتا۔ الغرض گھر کا دیگر سامان بھی یہاں سٹور میں ڈال دیا گیاتھا۔ اس طرف بیوی بچوں کے روز کے کہنے سننے پر آخر انہوں نے سوچا پھر کچھ دوستوں سے اظہار ِ حال کیا۔انھوں نے بھی بھابھی اور بچوں کی تجاویز پر مہرِ تصدیق لگا دی کہ بچے غلط تو نہیں کہہ رہے۔ آخر آپ کی اتنی دولت آپ کے گھروالوں کے بھی کام نہ آئے تو پھر کس کام کی۔ اب وہ رات دن بچوں کی فرمائش کو پورا کرنے کیلئے سوچ میں غلطا ں دکھائی دینے لگے۔

گھر کی منزلوں میں اوپر نیچے مشورے ہونے لگے کہ اب کون سی گاڑی لی جائی۔ اس سلسلے میں ان کے لڑکے مختلف سمتوں میں تحقیق کیلئے روانہ ہوئے۔گاڑیوں کے نرخ معلوم کئے آکر ابّا کو بتلایا۔ابّانے جی پی فنڈ کی جمع شدہ رقم کو چیک کیا۔خیر یہاں وہا ں سے رقم اکٹھی کی۔کچھ پیسے کم پڑ رہے تھے۔ان کے سسرال والوں نے بھی دو ایک لاکھ روپے بطور امداد دیئے بلکہ قرض کے بطور ان کے حوالے کر دیئے۔ شاید یہ سوچ ہو کہ خیر سے اس گاڑی میں انھوں نے خود بھی تو سیرو سیاحت کیلئے جانا ہوگا۔پھر دوسرے کیلئے نہ سہی خود اپنی سہولت کو دیکھ کر انھوں نے ایک اچھی گاڑی لینے کو مدد دی تھی۔ کوئی آرام دہ گاڑی ہو جس میں اگر تشریف رکھی ہو تو سپیڈ بریکر کے آ کر گذر جانے تک کا حال معلوم نہ ہو۔خیر صاحب نے مانگ تانگ کر سرمایہ بٹور لیا۔بچوں نے گاڑی کے آنے کی تجویز کے ساتھ ہی گاڑی چلانا کہیں دوستوں کی گاڑیوں میں گھوم کر سیکھ لیا تھا۔ان کو گاڑی اٹھارہ لاکھ میں پڑی تھی وہ بھی استعمال شدہ۔اب خود اندازہ لگائیں او رآپ سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے کہ اگر سیکنڈ ہینڈ گاڑی اٹھارہ کی ہوگی تو نئی نویلی کتنے میں آئے گی۔

بمعہ اہل و عیال بارگین سنٹر کے چکر کاٹے جانے لگے۔ ایک کو ایک اور دوسرے کو دوسری گاڑی پسند آتی۔ابّا نے دیکھا کہ پسند او رناپسند کے چکرمیں گاڑی خریدنا مشکل ہوا جاتا ہے تو انھوں نے تلوار کا فیصلہ کن وار کیا اور ایک گاڑی پر ہاتھ رکھ دیا۔ اب بچوں نے بھی چار وناچار ان کی مرضی پر رضامندی ظاہر کر دی۔ کیونکہ ان کو ماں نے کان میں سمجھا دیا تھا کہ گاڑی ہاتھ سے جانے نہ پائے۔ کیونکہ ابّانے اس کو تھوڑا ہی چلانا ہے۔اس کو تو آپ بچوں نے ڈرائیو کرنا ہے۔۔ پھر اماں نے کہہ بھی دیا تھا کہ ابّا کا دماغ اچانک گھوم جاتا ہے۔یہ نہ ہو گاڑی واڑی کے تصور کو بھی غصے میں آکر دیوار پر دے ماریں۔ صاحبان گاڑی تو آ گئی مگر وہ کسی طرف سے استعمال شدہ گاڑی نہ لگتی تھی۔ جو دیکھتا الٹا اس گاڑی کے صدقے واری جاتا۔گاڑی بھی تو چھوٹی موٹی نہ تھی۔ بڑی تھی اتنی کہ یوں محسوس ہوتا کہ گیرج میں کہیں سے جہاز اٹھا لائے ہیں۔

انہوں نے گاڑی میں خوب چکر لگائے بلکہ رشتہ داروں کو بھی حسبِ خواہش گھمایا۔مگر آہستہ آہستہ انھوں نے بعض بہت قریب کے لوگوں کو بھی چکر دینا شروع کر دیا۔ مگر اب کہانی میں ایک اور موڑ آنے والا تھا۔ اتنی بڑی گاڑی میں پٹرول ڈالنا بھی تو ایک کام ہے۔پھر آہستہ آہستہ وہ گاڑی گھر سے باہر سڑکو ں پر کم ہی دکھائی دینے لگی۔ پھر یوں ہوا کہ جب پہلی بار پٹرول مہنگا ہوا تو انھوں نے یہ جھٹکا برداشت کرلیا۔ مگر جب دوسری بار پٹرول گراں ہوا تو گاڑی کی نقل و حمل محدود ہوگئی اتنی محدود کہ اب گیرج ہی میں جیسے قید کر دی گئی ہو۔آخری اطلاعات جو خاندانی ذرائع سے آئیں وہ یہ تھیں کہ گاڑی کو گیراج میں قید کر دیا گیا ہے۔جب دوسری بار پٹرول کے گراں ہونے کا یہ حال ہو تو اب چونکہ دو دن پہلے پٹرول تیسری بار مہنگا ہوا توگاڑی کا گھرکے کارپورچ سے باہر نکلنا توبس ایک خیال ہی ہو سکتا ہے۔