محاورہ ہے کہ ممالک اپنے ہمسائے تبدیل نہیں کر سکتا اور نہ ہی دوسروں کی پسند و ناپسند کے مطابق خود کو تبدیل کر سکتا ہے البتہ عالمی سفارتکاری میں ممالک اپنے اپنے مفادات کیلئے معاشی حکمت عملیوں کو ڈھالتے ہیں اور ایسا کرنے والے ممالک اپنے اور اپنے ہمسائیوں سے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشی و داخلی امن و امان جیسی پیچیدہ مشکلات کا حل تلاش کر لیتے ہیں۔ اِس تناظر (پس منظر) میں دیکھا جائے تو وزیر خارجہ بلال بھٹو زرداری کا دورہئ جمہوری اسلامی ایران ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان کو علاقائی سلامتی اور اقتصادی لحاظ سے پاکستان کے استحکام کے زیادہ فائدے کیلئے اپنے دوست ممالک اور بالخصوص ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات دوبارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایران علاقائی سیاست و اقتصادیات کا اہم رکن ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کے ساتھ پائیدار تعلقات رکھتا ہے‘ اب ایران اور پاکستان کے وزرائے خارجہ نے کئی اہم شعبوں میں دو طرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے‘ جو کہ خوش آئند ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان جس قسم کے معاشی بحران سے گزر رہا ہے اس میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کس قدر مفید (گیم چینجر) ثابت ہو سکتے ہیں اور وزیر خارجہ بلال بھٹو اس مقصد کے لئے خطے بھر میں اپنے ہم منصبوں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ ایران کے ساتھ گرمجوش اور قریبی تعلقات قائم کرنا پاکستان کی ترجیح ہونی چاہئے اور ایرانی عوام اور قیادت چین کی طرح پاکستان کے لئے دلی محبت رکھتی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر ابدولہان نے بلاول بھٹو کے ساتھ اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں جن خیالات کا اظہا رکیا ہے.
وہ ہر لحاظ سے خوش آئند پیش رفت ہے۔ ایران کے ساتھ پاکستان کے برادرانہ تعلقات ہمیشہ ہی سے مضبوط لیکن کبھی سرد تو کبھی گرم رہے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں اِن تعلقات میں بھی سرد مہری دیکھی گئی ہے۔ اُمید ہے کہ تعلقات دوبارہ رواں دواں ہو جائیں گے اور اِس سے بھی زیادہ قوی اُمید ہے کہ دو طرفہ تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز ہوگا۔ اگر یہ صورت اختیار کر لی جائے تو پاکستان کے وزیر خارجہ کے دورہ ایران نے دونوں ممالک کو ایک بار پھر دو طرفہ تعلقات کے پورے دائرے کا جائزہ لینے کے قابل بنا دیا ہے۔ دونوں فریقوں نے اپنے تعلقات کو مزید آگے بڑھانے کے نئے امکانات کی نشاندہی کی ہے خاص طور پر سرحدی انتظام‘ رابطے اور ثقافتی و تعلیمی شعبوں میں تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاک ایران‘ عوام سے عوام کے درمیان رابطے بڑھانے اور عازمین حج کی سہولت بہتر بنانے کی بھی کافی سے زیادہ گنجائش موجود ہے۔ سرمایہ کاری اور تجارت دو اور شعبے ہیں جہاں ایران اور پاکستان دو طرفہ تعاون سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اگر وزیرخارجہ کا دورہئ ایران کا نتیجہ ”بارٹر تجارتی میکانزم“ کی فعالیت کی صورت تجارت کو وسعت دینے کے لئے ہو تو یہ ایک بہتر تفہیم ہوگی چونکہ دونوں ممالک کو زرمبادلہ کی کمی کا سامنا ہے اس لئے ڈالروں میں کاروبار کرنے کے دباؤ کو کم کرکے بارٹر تجارت فائدہ مند (کارآمد) ثابت ہوگی۔ پاکستان کو اپنے ملکی اور صنعتی صارفین کے لئے مزید توانائی کی ضرورت ہے اور ایران رعایتی قیمت پر پہلے ہی بجلی دینے کی پیشکش کر چکا ہے۔ پاکستان ایران پائپ لائن طویل عرصے سے التوأ کا شکار ہے جس پر وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے والد آصف علی زرداری نے بطور صدر مملکت کام کا آغاز کیا تھا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ پاکستان اور ایران دونوں ہی افغانستان سے براہ راست متاثر ہیں۔ اس لئے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مستحکم افغانستان دونوں ممالک کیلئے اہم ہے۔
خطے میں مزید تنازعہ اور عدم استحکام ارد گرد کے تمام ممالک کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا اور یہی ایک وجہ ہے کہ ایران اور پاکستان کو کسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات سے قطع نظر بہتر تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔ یہ خطہ کئی دہائیوں سے امن کی خواہش مند ہے اور اس دورے کے نتائج سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ باہمی تعاون سے معاشی اور سیاسی استحکام حاصل کیا جا سکے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت دنیا ایسے دور سے گزر رہی ہے جہاں ممالک کے درمیان تعلقات کی بنیاد معاشی مفادات ہیں، جہاں تک پاکستان اور ایران کا تعلق ہے تو وہ کئی حوالوں سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔